|تحریر: پارس جان|
اکیسویں صدی کا سورج آج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ بنی نوعِ انسان کی ہزاروں سالہ اجتماعی محنت کے بلبوتے پر سائنس اور ٹیکنالوجی نے وہ کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جن کا چند دہائیاں قبل تک خواص و عوام تصورتک نہیں کر سکتے تھے۔ مصنوعی ذہانت (AI) کا حالیہ انقلاب اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا بنایا جانا ان تکنیکی حاصلات کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ ایجادات اتنے بے پناہ امکانات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں کہ جنہیں واقعتا معجزات سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔ فلکیات سے لے کر حیاتیات اور ارضیات سے لے کر طبیعات تک، بنی نوعِ انسان کے لیے فطرت پر فیصلہ کن قدرت حاصل کرنے کے تمام معروضی لوازمات اب نہ صرف موجود ہیں بلکہ انسانیت کی خدمت پر معمور کیے جانے کے لیے مضطرب اور بے قرار ہیں۔
لیکن ان تمام امکانات کے متوازی جب ہم اس کرۂ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کے حالات، معیارِ زندگی اور تفکرات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ وہی انسان ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا معجزے کر دکھائے ہیں۔ اربوں انسان آج بھی حشرات کی طرح زمین پر رینگتے پھر رہے ہیں اور کروڑوں کوڑا کرکٹ سے رزق جمع کر کے زندہ ہونے کے زعم کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ایک’معمولی وائرس‘ نے فطرت کے فاتح انسان کو جو تگنی کا ناچ نچایا ہے، اس پر جتنا رونا آتا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہنسی بھی آتی ہے۔ سائنس اور تکنیک کو انسانی بہبود کی بجائے تخریبی مقاصد کے لیے ہی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ یہی اس سفاک نظام کا سب سے بڑا جرم ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے۔
اس نظام کا مقصد اور منشا اجتماعی بقا اور فلاح ہے ہی نہیں بلکہ یہ دو فیصد سرمایہ داروں، صنعتکاروں، بینکاروں اور اشرافیہ کے مفادات، ذاتی جائیدادوں اور منافعوں کے تحفظ اورافزودگی کے لیے قائم ہے۔ اس نظام میں ریاستیں، حکومتیں، اخلاقیات و اقدار، حکمت و دانش سب سرمائے کی لونڈیاں ہیں جن کا تاریخی فریضہ سرمائے کی ہوس کی تسکین کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اس نظام کے آئینی اور اخلاقی ڈھانچے کا تکنیکی امکانات سے تضاد اب نئی نسل کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو رہا ہے۔ وہ اس نظام کے خاتمے کی خواہش اور تمنا لے کر تاریخ کے افق پر نمودار ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام کا متبادل کیا ہے؟ جب سوشلزم کو ان کے سامنے متبادل نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہ سوشلزم کے پوٹینشل اور افادیت کو بھی شکوک و شبہات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ یہی تنقیدی اور تشکیکی طرزِ فکر اس نوجوان نسل کی نامیاتی سرشت ہے جو اپنے اندر بے پناہ متضاد مگر انقلابی پوٹینشل مجتمع کیے ہوئے ہے، جسے ہماری دائیں و بائیں بازو کی حاوی دانش اور بالخصوص لبرل انٹیلی جنشیہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم ان لبرل مسخروں کی طرح نوجوانوں کی اس متجسس اور لاابالی طبیعت کا تمسخر نہیں اڑاتے بلکہ ان کے سوالوں کے سنجیدہ جوابات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر سوشلزم کی بات کی جائے تو سوشلزم پر اس نئی نسل کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات زیادہ تر انہیں ماضی کے طرزِ فکر سے ورثے میں ملے ہوئے ہیں اور آج پہلے سے کہیں زیادہ بودے ہو چکے ہیں۔ آئیے ان میں سے دس اہم ترین، بنیادی اور ہر جگہ سب سے زیادہ اٹھائے جانے والے اعتراضات اور سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سوشلزم کا تصور کارل مارکس نے دیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے، مارکس سے قبل سوشلزم کا تصور نہ صرف موجود تھا بلکہ مخصوص علمی و ادبی حلقوں میں خاصا مقبول بھی تھا۔ مگر اس سوشلزم کی کوئی سائنسی توضیح نہیں کی جاتی تھی، اسی لیے اسے ’خیالی سوشلزم‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ مارکس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے سوشلزم کے تصورکو سائنسی بنیادیں عطا کیں اور محض رومانوی نعرے بازی کی بجائے تاریخی لازمے کے طور پر سوشلزم کا مقدمہ پیش کیا۔ اسی لیے مارکس کو سائنسی سوشلزم کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنے جدلیاتی طریقہ کار سے تاریخ کا مطالعہ کیا اور کہا کہ انسانی سماج طبقات پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ طبقات ہی ہوتے ہیں جن کے مابین کشمکش کے باعث سماج کبھی جامد نہیں ہوتا بلکہ مسلسل ارتقا پذیر رہتا ہے اور ارتقا کے مخصوص مراحل سماجی انقلابات کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ یہ سماجی انقلابات نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ گویا کوئی بھی نظام ازلی اور ابدی نہیں ہوتا۔ جب تک رائج الوقت نظام ذرائع پیداوار کو ترقی دے کر انسانوں کے معیارِ زندگی میں بہتری لاتا رہتاہے، وہ ترقی پسندانہ کردار ادا کرتا ہے۔ ایک وقت تک سماج یونہی آگے بڑھتا ہے لیکن پھر ذرائع پیداوار کی ترقی اور نظام کے بالائی ڈھانچے کے مابین تضادات شدت اختیار کرجاتے ہیں اور طبقاتی بغاوتوں کے ذریعے پرانے نظام کی کوکھ سے نیا نظام جنم لیتا ہے۔ قدیم دور کے ابتدائی انسانی سماج میں طبقات موجود نہیں تھے مگر پھر فطرت سے مقابلے اور بقا کی جدوجہد نے انسان کو اوزار بنانے پر مجبور کیا۔ ان اوزار کی بدولت انسان شکار اور پھر کھیتی باڑی کے قابل ہوا۔تاریخ کے مخصوص مرحلے پر پہلے طبقاتی سماجوں یعنی ایشیائی طرز پیداوار اور غلام داری کا ظہور ہوا، جو ہزار وں سال تک قائم رہے۔ پھر غلاموں کی بغاوتوں نے غلام داری نظام کا خاتمہ کیا اور جاگیردارانہ سماج کی بنیادیں رکھیں جو ایک سے ڈیڑھ ہزار سال تک قائم رہنے کے بعد کسانوں اور نومولود سرمایہ دار اور مزدور طبقات کی شورشوں کے بعد اختتام پذیر ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پیداواری قوتوں کو بے پناہ ترقی دی مگر اب اس کے داخلی تضادات نے پھر انقلابی بحرانات کی بنیادیں استوار کر دی ہیں۔ اب محنت کش طبقہ انقلابی بغاوتوں کے تسلسل کے ذریعے ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں اس نظام کو اکھاڑ پھینکے گا اور اس کے ملبے پر سوشلزم کی شاندار عمارت تعمیر کرے گا۔ یہی انقلاب کی جدلیات ہے۔
یعنی سرمایہ دارانہ نظام ازخود ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کا خاتمہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر سوشلزم کے زیادہ تر ناقدین کا اعتراض سوشلسٹوں کے اس تصورِ انقلاب پر ہی ہے۔ ان کے خیال میں انقلاب اس لیے ناممکن ہے کیونکہ لوگ اول تو انقلاب کرنا ہی نہیں چاہتے اور دوم یہ کہ اگر وہ چاہیں بھی تو انقلاب کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ انہیں روزمرہ کے معمولات میں اتنا پھنسا دیا گیا ہے کہ وہ نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں بلکہ محض اس کا ایندھن بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر کبھی یہ مشتعل ہوتے بھی ہیں تو ان کے مالکان ان کو تھوڑی سی ہڈی ڈالتے ہیں اور یہ پھر کتوں کی طرح دم ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ حکمران طبقے کی اطاعت میں زندگی گزاریں اور ان کے لیے نئے غلام پیدا کر کے مر جائیں۔ وہ خود اپنے اوپر ہونے والے ظلم و جبر کو فطری سمجھتے ہیں، لہٰذا اس نظام کو کیونکر بدلنے لگے؟ جیسا نظام چلتا آیا ہے، ویسا ہی چلتا رہے گا۔ حکمران طبقہ بے حد طاقتور ہے، اس کے پاس نہ صرف پولیس، فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ اور افسر شاہی کی شکل میں دیو ہیکل ریاستی مشینری ہے بلکہ میڈیا، شوبز اور جامعات وغیرہ کے ذریعے وہ لوگوں کی روح اور ضمیر پر بھی حکومت کرتا ہے۔ وہ کسی بھی خطرے کے پیشِ نظر اصلاحات کا سہارا لیتا ہے یا عوامی لیڈروں کو ہی خرید لیتا ہے اور عوام پھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے مزید بہت سے دلائل انقلاب کو خارج از امکان قرار دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سرسری سی نظر دوڑائی جائے تو یہ دلائل عین منطقی معلوم پڑتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ خود رو طور پر سوشلزم کے ناقدین کے دماغ کی پیداوار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ سرمایہ دارانہ ریاست کے صدیوں پر محیط سرکاری پروپیگنڈے کا نتیجہ ہیں۔ وہ لوگ جن کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، سرکاری سوچ ہی ان کی سوچ بن جاتی ہے۔ درحقیقت یہ خواتین و حضرات موجودہ سماجی معمول، معاشی حرکیات، عوامی نفسیات اور محنت کش طبقے کے شعور کو جامد حالت میں دیکھتے ہیں۔ وہ انقلابات کو سماج کے روزمرہ معمول میں تلاش کرتے ہیں جبکہ انقلابات غیر معمولی حالات میں جنم لیتے ہیں اور تاریخی مستثنیات ہوتے ہیں۔ یعنی انقلابات روز روز نہیں کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں، البتہ وہ محرکات جو انقلابی حالات کو جنم دیتے ہیں، سطح کو متاثر کیے بغیر سماج کے روزمرہ کے بطن میں ہی پرورش پاتے ہیں۔سماجی معمولات میں پھلتے پھولتے ان انقلابی امکانات کو روایتی سوچ اپنے اس مخصوص طرزِ فکر یا ان فکری تعصبات و توہمات کے باعث نظر انداز کر دیتی ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام نے نصابِ تعلیم، اخلاقیات اور سماجی تقسیمِ کار کے ذریعے اس میں سرایت کیے ہوتے ہیں۔
انقلابات دانشور نہیں بلکہ محنت کش عوام برپا کرتے ہیں جن کے شعور میں حالات کی اتھل پتھل سے بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ ان کے شعور کو صرف نشیب یا صرف فراز میں نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل میں ہی سمجھنا چاہیے۔ لرزہ خیز زلزلے سے چند گھڑیاں قبل تک کسی کا بھی دھیان اس ناگہانی آفت کی طرف نہیں جاتا حالانکہ سب نے ماضی میں آنے والے زلزلوں اور ان کی تباہ کاریوں کے بارے میں قصے کہانیاں سن رکھے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ماہرِ ارضیات بارہا خبردار بھی کر ے کہ زلزلہ آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو بھی اول تو یہ تنبیہہ عام لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی اور اگر پہنچے بھی تو لوگوں کی اکثریت اسے اس لیے نظر انداز کرتی ر ہتی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں یا پھر دہائیوں سے تو یہی سنتے آ رہے ہیں، مگر ایسا ہوا تو نہیں۔ ویسے محنت کش عوام ایسی خبروں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کسی بوسیدہ عمارت کے از خودمنہدم ہونے سے دس منٹ پہلے بھی اگر اس کے مکین سے یہ بحث کی جائے کہ یہ عمارت گرنے والی ہے یا گر سکتی ہے تو وہ یہ کہے گا کہ ’اتنے سالوں سے تو گری نہیں، ہو سکتا ہے کہ مزید کئی سال نہ گرے‘۔ بحث کرنے والا ذہین و فطین آدمی عمارت کے ملبے میں دب کر مر جانے کے بعد بھی اس شخص کی جہالت کا رونا روتا رہے گا کہ اسے بہت سمجھایا مگر نہیں مانا۔ وہ یہ دیکھنے سے ہمیشہ قاصر رہے گا کہ اس مفلوک الحال شخص کے پاس اس
سانحے کے امکان کو ’رد کرنے‘ کے علاوہ اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ فرض کر لیں کہ اگر اس شخص کو ایک نئے مکان کی چابی تھما کر کہا جاتا کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے، جتنی جلدی ہو سکے وہاں منتقل ہو جاؤ تو کیا وہ اس بوسیدہ عمارت کو چھوڑنے میں زیادہ دیر لگاتا؟ فطرتی مظاہر میں بھی مقدار کے معیار میں بدلنے سے نئی نئی شکلیں ابھرتی رہتی ہیں۔ سیاسیات میں بھی یہ اصول کارفرما ہوتا ہے۔ تاریخ کے اہم ترین لمحات میں متبادل کی موجودگی یا فقدان فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے ہی محنت کش اپنے استحصال کو صرف اس لیے برداشت نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے فطری سمجھتے ہیں بلکہ ان کے پاس اپنی قوتِ محنت بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ مارکس نے ان کے پاؤں میں پڑی سرمائے کی ان دکھائی نہ دینے والی زنجیروں کو بخوبی بھانپ لیا تھا۔ طویل عرصے تک محنت کش ایسے ہی استحصال کا خام مال بنے رہتے ہیں اور انقلابی پروپیگنڈے کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ بہتری کی مصنوعی امید میں ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں۔مستعدی سے کام اور اوور ٹائم کرنے کے باوجود بھی جب مسلسل بڑھتے ہوئے افراطِ زر اور بحران کے باعث محنت کشوں کا گزارہ مشکل سے ناممکن ہوتا چلا جاتا ہے تو وہ بالآخر اپنی زنجیر ہلانا شروع کر دیتے ہیں دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کی نام نہاد ترقی کے دوران بھی امارت اور غربت کی بڑھتی خلیج اور استحصال میں تیزی طبقاتی کشمکش میں شدت لا سکتی ہے اور بظاہر شرح ترقی میں ہونے والے اضافے کے باوجود انقلابی تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔ اس کا اظہار چھوٹی چھوٹی ہڑتالوں، احتجاجوں اور فیکٹری گیٹ میٹنگز وغیرہ کی شکل میں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری صنعت اور پبلک اداروں میں اسی طرح کے واقعات رفتہ رفتہ معمول بن جاتے ہیں۔ محنت کشوں کی گفتگو اور سوچنے کا انداز تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ ناقابلِ تردید سمجھے جانے والے سماجی قوانین و اقدار اور حکومتی معاملات کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسان، طلبہ اور دیگر سماجی پرتیں بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتی ہیں۔ قومی، جمہوری حقوق وغیرہ کے گرد یا مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کے خلاف متوسط طبقے کے سیاسی تحرک میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہونے لگتا ہے۔ یہ تمام طبقات اپنے داخلی تناؤ اور باہمی تعلقات کے بدلتے ہوئے توازن کے باعث ایک دوسرے سے سیاسی توانائی کشید کرنے کے لیے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت متلاطم اور تعطل پذیر بھی ہوتا ہے۔ ریاستی حکام اس پیش رفت کو روکنے کے لیے اصلاحات سے لے کر جبر تک ہر حربہ استعمال کرتے ہیں مگر ان کے ہر اقدام کے الٹ نتائج برآمد ہونے لگتے ہیں اور کسی بھی ایک واقعے کی بنیاد پر عوامی غم و غصہ انقلابی بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حکام جب مزید جبر کی کوشش کرتے ہیں تو ریاست اندر سے طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ جاتی ہے۔ پولیس اور فوج کی طرف سے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کی دیو ہیکل طاقت تحلیل ہو جاتی ہے اور اقتدار ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔
انقلاب ماضی اور مستقبل کے مابین فیصلہ کن معرکے کا نام ہے۔ جس نظام میں ہم رہ رہے ہیں، یہ خود انقلابات کی وساطت سے قائم ہوا۔ لوگ سماج کی سائنس کو پڑھ اور سمجھ کر انقلاب نہیں کرتے بلکہ زندہ رہنے کے لیے انقلاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث مزدور طبقہ ہی ختم ہو رہا ہے، انکی یہ دلیل درحقیقت انقلاب کے خلاف نہیں انقلاب کے حق میں جاتی ہے کیونکہ مسلسل پھیلتی ہوئی بیروزگاری کے باعث ان اربوں محنت کشوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ کچھ بچتا ہی نہیں۔ نظام میں اصلاحات کی ناپید ہوتی ہوئی گنجائش بظاہر ناممکن نظر آنے والے انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جیسا کہ ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ہم نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں دنیا بھر میں بے شمار انقلابی واقعات دیکھے ہیں بالخصوص مصر، سوڈان، ایران اور سری لنکا کے واقعات توجہ کے مستحق ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ انقلابات کو براہِ راست دیکھ کر بھی ان کے وجود کے امکان کے ہی انکاری ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان تمام انقلابات کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام بہرحال موجود ہے اور لوگ مایوسی اور پسپائی کا شکار ہیں۔ ان تمام ممالک میں سوشلسٹ نظریاتی طور پر تیار اور اتنی تعداد میں موجود نہیں تھے کہ وہ ہوا میں معلق اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لیتے۔ لیکن اس موضوعی کمزوری کے باعث معروضی حقائق کو تو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ کسی نقص یا کوتاہی کے باعث ہونے والے اسقاطِ حمل کی صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ زچگی ہی نہیں ہوئی تھی تو کیا حقیقت تبدیل ہو جاتی ہے؟ عوام جب اپنی تقدیر بدلنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، وہی انقلاب ہوتا ہے۔ کیا ایران اور سوڈان میں عوام نے ہر مقدس شے کوپاؤں تلے نہیں روند ڈالا تھا؟ کیا ریاست نام کی کوئی چیز سری لنکا میں کہیں دکھائی دے رہی تھی؟ آئندہ برسوں اور دہائیوں میں ہم اس طرح کے مزید واقعات دیکھیں گے، پسپائیوں اور ناکامیوں کے باوجود یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سرمایہ داری کو اکھاڑ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والی کوئی پارٹی سامنے نہیں آتی۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام کا سوشلزم کے علاوہ کوئی متبادل ہوتا تو مذکورہ بالا انقلابات میں ضرور نمودار ہوتا۔ ایسی صورتوں میں جمہوری یا غیر جمہوری عبوری سیاسی تشکیلات بالآخر پھر سرمایہ دارانہ معمول کے احیا پر ہی منتج ہوتی رہیں گی۔ گویا ہمارے عہد میں انقلاب یا تو سوشلسٹ ہو گا یا پھر ردِ انقلاب اس کا مقدر ہے۔ انقلاب کی ناکامی سے جہاں وقتی طور پر شعور پھر نشیب زدہ ہو گا جیسے حالیہ انقلابات میں ہوا، وہیں نظام کا بحران نئے فراز کے بیج بھی بو رہا ہے اور متبادل کی ضرورت مزید شدت سے ابھر رہی ہے۔ شعور عموماً اتنا قدامت پسند ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ہی تبدیل کیے گئے حالات کو بھی بڑی مشکل سے قبول کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی واقعات میں سرگرم نوجوانوں کا بھی خود کو ’غیر سیاسی‘ قرار دینا سٹیٹس کو سے نفرت ہی کی ایک شکل ضرور تھی مگر ایک نئے سیاسی انقلاب کی تمہید بھی تھی۔ اگر پسپائیاں عوام کی کسی پرت کو واپس گوشہ نشینی میں جانے پر مجبور کر بھی دیں تو سماجی اتھل پتھل نئی اور تازہ دم پرتوں کو گریبان سے پکڑ کر میدانِ کار زار میں لے آئے گی۔ یہی ہمارے عہد کا کردار ہے۔
سوشلزم ہے کیا؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ مخالفین اس کی طرح طرح کی توضیحات پیش کرتے ہیں۔ دراصل یہ ایک معاشی و سماجی نظام ہے جس میں ذرائع پیداوار سماج کی اجتماعی ملکیت بن جاتے ہیں جن کا نظم و نسق محنت کشوں کی جمہوری ریاست کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ سماج میں پیدا ہونے والی قدرِ زائد یعنی دولت مٹھی بھر اشرافیہ کی بجائے ریاستی خزانے میں جمع ہوتی ہے اور مزدور ریاست اسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے۔ قومی، صنفی، لسانی، مذہبی و فرقہ وارانہ امتیازات ماضی بعید کے قصے بن جاتے ہیں۔ امیر اور غریب کی تقسیم یعنی سماج کی طبقاتی بنتر معدوم ہو جاتی ہے اور انسان پر سے انسان کے ہر طرح کے جبر اور استحصال کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ریاست کے پاس وسائل کی فراوانی کے باعث سماج میں سے ہر قسم کی عمومی قلت کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور تعلیم، علاج، رہائش اور ٹرانسپورٹ سمیت تمام بنیادی انسانی ضروریات ریاست مفت فراہم کرتی ہے۔ بیروزگاری کا تصور تک باقی نہیں بچتا اور ثقافتی میدان میں ترقی کی رفتار ماضی کی تمام حاصلات پر سبقت لے جاتی ہے۔ اس نظام پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک یوٹوپیا ہے یعنی ایک خیالی جنت، جہاں تمام مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔معترضین اگر انقلاب کی لازمیت کو مان بھی لیں تو وہ اس نظام کی مذکورہ بالا صفات اور امکانات کو آسانی سے قبول نہیں کر پاتے۔ ظاہر ہے نسل در نسل چند لوگوں کو امیر سے امیر تر اور باقی بھاری آبادی کو غریب تر ہوتا ہوا دیکھنے والوں کو امیر اور غریب کے فرق کے بغیر سماج تو ایک خواب ہی لگے گا۔ مظلوم اقوام کے جمہوری حقوق کی پامالی اور انسانیت سوز سلوک کے معمول میں قومی جبر کے واقعی خاتمے کا تصور کسی مذاق سے کم نہیں۔ جب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کے ریپ عام ہو جائیں تو آزاد عورت کا تصور ذہن کیسے قبول کرے۔ جب مذہبی اختلاف کے باعث مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونا تعجب کا باعث نہ رہے تو تمام تر تعصبات و توہمات سے پاک معاشرے کا تصور عجیب ہی لگتا ہے۔ جب سکول جانے کی عمر کے کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہوں تو مفت تعلیم کا حصول ناقابلِ یقین نہ لگے تو اور کیا لگے۔ جب آئے روز قابلِ علاج بیماریوں سے سینکڑوں بزرگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہوں تو مفت علاج کی بات ایک بھڑک ہی محسوس ہو گی۔ جب بیروزگاری سے تنگ نوجوان روز خود کشیاں کرتے ہوں تو سو فیصد روزگار دینے والے نظام کے تصور کو کیسے قبول کیا جائے۔
تو کیا واقعی سوشلزم یوٹوپیا ہے؟ یوٹوپیا کہتے کسے ہیں؟ ایک ایسا خیال جس کی کوئی مادی بنیاد ہی موجود نہ ہو یوٹوپیا کہلاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سوشلزم کے مذکورہ بالا دعووں کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کیا واقعی کوئی مادی امکان موجود ہے بھی یا نہیں۔ ذرائع پیداوار کی ریاستی تحویل جو سوشلزم کا نقطہ آغاز ہے، اس کے معروضی امکانات 2008ء کے مالیاتی بحران سے مسلسل جاری کساد بازاری نے کئی بار اجاگر کیے ہیں۔ سرمائے کے بے ہنگم ارتکاز نے مبالغہ آمیز اجارہ داریوں کو جنم دیا ہے۔ چند گنی چنی اجارہ داریاں عالمی منڈی اور پیداوار کو کنٹرول کرتی ہیں۔ صرف زراعت اور خوراک کے شعبے کی مثال لے لیجیے۔ ایگروکیمیکلز کی عالمی منڈی کے 77.6 فیصد جبکہ بیج (seed) کی عالمی منڈی کے 58 فیصد کو صرف 6 کارپوریشنز کنٹرول کرتی ہیں۔ اسی طرح صرف 10 کارپوریشنز عالمی زرعی تجارت کے 40 فیصد کو چلاتی ہیں۔ یہی حالات تمام شعبوں میں نظر آئیں گے۔ بہت سی اجارہ داریوں کا حجم دنیا کے بے شمار ممالک کی مجموعی معیشتوں کے حجم سے بھی زیادہ ہے۔ ان اجارہ داریوں نے منڈیوں کی مقابلے بازی میں بے پناہ مصنوعی سرمائے کا سہارا لے کر عالمی معیشت کے اتنے بلبلے تشکیل دیئے ہیں کہ ان بلبلوں کا پھٹنا ناگزیر ہے۔ جب یہ بلبلے پھٹتے ہیں تو ان اجارہ داریوں کی نجی ملکیت کا لغو پن آشکار ہو جاتا ہے اور ان کو انہدام سے بچانے کے لیے قومی ریاستیں اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان منہدم ہوتے ہوئے مالیاتی اداروں کو قومیا کر ان کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بحران کی ذمہ دار کمپنیاں جو اپنی منافع خوری کی ہوس کے بے قابو ہونے کے باعث دیوالیہ ہوتی ہیں، انہیں قومیا کر ساری قومی معیشت کو ہی داؤ پر لگایا جا سکتا ہے تو ساری اجارہ داریوں اور ذرائع پیداوار کو ہی قومیا کر عوامی فلاح و بہبود کے لیے قومی خزانے کے اصراف کو ممکن کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ نجی ملکیت کی آئینی، اخلاقی و سماجی حیثیت کو الٹنے کے علاوہ اس میں کوئی دوسری قباحت نہیں ہے۔ مادی اور معروضی طور پر یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔
جہاں تک عوامی فلاح و بہبود کے سوشلسٹ منصوبوں یعنی بھوک اور غربت سے نجات، قلت کے خاتمے، مفت تعلیم، علاج، رہائش، ٹرانسپورٹ، سو فیصد روزگار وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ آج کے عہد میں قطعی طور پر یوٹوپیا نہیں ہے۔سرمایہ داری کا عالمی بحران آخری تجزیئے میں قلت نہیں بلکہ زائد پیداوار کا بحران ہے۔ مقابلے بازی کے باعث جدید مشینری کے استعمال سے بیروزگاری وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ چند محنت کش اب اتنا پیدا کر دیتے ہیں جو گزشتہ دہائیوں میں لاکھوں محنت کش پیدا کرتے تھے۔ اس سے منڈی کی قوتِ خرید تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ اسے مصنوعی طور پر بحال کرنے کی کوشش میں لگائے جانے والے سرمائے کے انجیکشن نے قرضوں کے پہاڑ بنا دیئے ہیں اور افراطِ زر کی حالیہ لہر کو جنم دیا ہے۔ اب اس کے انسداد کے لیے شرح سود کو بڑھا کر معیشت کو ایک نئے بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ حدود قیود میں اب اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ جب تک قومی ریاست اور نجی ملکیت کے خونی پنجوں سے آزاد کرا تے ہوئے اس زائد پیداوار کو بروئے کار لا کرمصنوعی قلت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا بحران کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود رہے گا۔ گویا سرمایہ دارانہ نظام اب اپنی ہی تخلیق کردہ پیداواری صلاحیت کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ اگر اعداد و شمار کی زبان میں بات کی جائے تو اکانومی ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اپریل 2023ء میں کل پیداواری صلاحیت کا 79.7 فیصد ہی زیرِ استعمال تھا۔ برطانیہ میں 2020ء کے اختتام پر 73.9 فیصد، سپین میں اپریل 2023ء میں 76.3 فیصد، ارجنٹائن میں 67.5 فیصد، ناروے میں 79 فیصد، پولینڈ میں 78.7 فیصد، اٹلی میں 77.2 فیصد، فرانس میں 81.9 فیصد، جرمنی میں 84.2 فیصد، یونان میں 73.7 فیصد اور بلغاریہ میں 75.6 فیصد ہی پیداواری صلاحیت استعمال ہو پا رہی ہے۔ فائبر 2 فیشن نامی ایک ویب سائٹ کے مطابق انٹرنیشنل ٹیکسٹائل مینوفیکچررز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے عالمی ٹیکسٹائل صنعت کی پیداواری صلاحیت کا صرف 74 فیصد ہی استعمال میں ہے۔
لندن کے ایک خیراتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر خوراک پیدا کرنے والے نظام کے تحت روزانہ زمین پر بسنے والے ہر شخص کے لیے 6000 کیلوریز پیدا ہوتی ہیں۔ یہ مقدار ہر بالغ شخص کی ضرورت سے 2.6 گنا زیادہ ہے جبکہ دوسری طرف دنیا بھر میں 2.3 ارب لوگ صحت افزا خوراک اور غذائی ضروریات سے محروم ہیں۔ یو این فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ 2005ء سے 2020ء تک عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ گنے، چاول، مکئی اور گندم کی پیداوار میں اس عرصے میں لگ بھگ 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ہر قسم کی سبزیوں کی پیداوار میں 65 فیصد، دودھ کی پیداوار میں 53 فیصد اور گوشت کی پیداوار میں کم از کم 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ اس کے متوازی عالمی سطح پر غذائی قلت کا شکار لوگوں کی تعداد 2019ء میں 150 ملین تھی جو اب بڑھ کر 2.3 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی خوراک کے شعبے میں پیداوار اور پیداواری صلاحیت کے بڑھنے سے غذائی قلت بھی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ یہی صورتحال لگ بھگ ہر شعبے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر مسلسل بڑھتی ہوئی منافع خوری کی بات کی جائے تو آئل اور گیس کے شعبے کی ایک بڑی ملٹی نیشنل EXXonMobilنے رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں 11 ارب ڈالر کا منافع کمایا، 2022ء میں اس کمپنی نے 55.7 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا۔ یہ عین اس وقت ممکن ہوا جب سارے یورپ میں کروڑوں لوگ کھانے یا ’گرمائش‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور تھے۔ 2008ء کے بحران سے لے کر اب تک مرکزی بینکوں نے اس طفیلی نظام کو بچانے کے لیے 10 ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم مقداری آسانی کے ذریعے یعنی نوٹ چھاپ کر سسٹم میں انجیکٹ کی، جس کی قیمت اب افراطِ زر کی شکل میں عام لوگوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اس نظام کی متروکیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ عین اس وقت جب دنیا میں غربت اور افلاس تاریخی حدوں کو عبور کر رہے ہیں، دنیا بھر میں فوجی اخراجات بھی تاریخ کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ صرف نیٹو ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں 133 ارب ڈالر کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت بحران کے باعث سرمایہ دار سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور کھربوں ڈالرز، پاؤنڈز اور یوروز ’مردہ زر (Dead Money) کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ صرف کینیڈا میں 2019ء میں 700 ارب ڈالر کی مردہ زر موجود تھی جس میں سالانہ 65 ارب ڈالر کا اضافہ ہو رہا تھا۔ اگر یہ تمام مذکورہ بالا دولت، منافعے اور پیداواری صلاحیت عوامی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو تو اسی دنیا پر حقیقی جنت کی تعمیر کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
انسانیت کے سامنے اس وقت یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ اس انتشارہ زدہ منڈی کی معیشت کو ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت میں بدل دیا جائے۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس کرۂ ارض پر بھوک، لاعلاجی اور افلاس سراسر غیر ضروری اور مصنوعی ہے۔ ان کی وجہ سے ہونے والی اموات کو قدرتی نہیں بلکہ اس نظامِ زر کا قتلِ عام قرار دینا چاہیے۔ زیادہ تر لوگوں کا سماج اور معیشت کی سوشلسٹ منصوبہ بندی اور اس کے ممکنہ نتائج کو یوٹوپیا قرار دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ اگر قرونِ وسطیٰ کے کسی عقلمند ترین انسان سے کوئی یہ کہتا کہ ایک وقت آئے گا جب ہم چند گھنٹوں میں بیٹھے بٹھائے اُڑ کر ہزاروں میل کا سفر طے کر لیا کریں گے تو یقینا وہ عقلمند شخص اس قسم کا دعویٰ کرنے والے فرد کو پاگل قرار دے دیتا۔ ایسے ہی سو سال قبل انسانوں کے ’سپئیر پارٹس‘ یا ٹرانسپلانٹیشن کا تصور کسی یوٹوپیے سے کم نہیں تھا مگر آج یہ سب سماج میں نہ صرف ہو رہا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہو۔ مشہور جرمن فلسفی آرتھر شوپنہائر نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ’ہر سچ کو تین مراحل سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے، دوسرے مرحلے میں اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں اسے ایسے تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے کبھی اس کا انکار کیا ہی نہ گیا ہو۔‘
یہ سوشلزم کے ناقدین کا مرغوب ترین اعتراض ہے۔ اس کے حق میں پہلی دلیل تو یہ دی جاتی ہے کہ جب سب انسان برابر ہوں گے اور تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی ریاست مہیا کرے گی تو لوگ کام ہی کیوں کریں گے؟ منافع اور ذاتی ملکیت کے محرک کے بغیر سماج چل ہی نہیں سکتا، یوں سوشلسٹ معاشرہ کام چوروں کی آماجگاہ بن جائے گا اور ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ یہاں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ انسان صرف فوری ذاتی مفاد یا بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کے خوف کی وجہ سے ہی کام کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حد تک تو یہ بات سو فیصد درست ہے مگر اسے ایک آفاقی اصول یا قانون نہیں سمجھنا چاہیے۔ قبل از سرمایہ داری بھی انسانی سماج قائم تھا اور لوگ اپنے تئیں مختلف ذمہ داریاں سر انجام دیتے تھے اور اگر سرمایہ داری نہیں رہے گی، تب بھی انسان سماجی طور پر متعین کردہ فرائض نبھانے کی کوشش کریں گے۔ کام کرنے کا محرک محض لالچ یا خوف ہی نہیں ہوتا بلکہ خود انسانی سرشت تخلیقی سرگرمی کا بنیادی محرک ہے جو بنی نوعِ انسان کو دیگر انواع سے ممتاز کرتی ہے۔ سرمایہ داری کے عروج کے دور میں جب ترقی یافتہ ممالک میں ویلفیئر ریاست کی تشکیل ہوئی اور ریاست بیروزگاری الاؤنسز، لنگر خانے وغیرہ سمیت بہت سی بنیادی ضروریات فراہم کرتی تھی، تب بھی لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے اپنی صلاحیت کے مطابق کچھ نہ کچھ کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ تبدیل شدہ سماج میں محرک بھی بدل جاتے ہیں مگر ہم کسی ایسے انسانی سماج کو فرض تک نہیں کر سکتے جس میں کوئی محرک ہی باقی نہ رہے۔ سوشلسٹ سماج میں اجتماعی ملکیت خود ایک بہت بڑا محرک ہو گی جو نہ صرف کام کی پیداواریت میں اضافہ کرے گی بلکہ ثقافتی میدان میں بھی معیاری تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے گی۔
جب سماج اور اس کی املاک مٹھی بھر اشرافیہ کی ملکیت نہیں ہوں گے تو وہ سب کی ملکیت ہوں گے، اور سماج کے ہر شعبے کی بہبود ہر شخص کی ذاتی بہبود کی ضمانت بن جائے گی۔ سماج کی ترقی سے مراد آئندہ نسل کے لیے بہتر زندگی کی سب کو یکساں فراہمی ہو گا جس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم میں ذاتی مفاد ختم نہیں ہو گا بلکہ اس کی تشریح یکسر تبدیل ہو جائے گی۔ اس کا عملی نمونہ ہم سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کی بہترین کارکردگی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ لبرل انٹیلی جنشیہ کے خدشات کے برعکس نجی ملکیت اور منافع کے محرک کے بغیر روس کے پسماندہ سماج نے جتنی برق رفتار ترقی کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انقلاب کے بعد کے 50 سالوں میں سوویت یونین کی صنعتی آؤٹ پٹ میں 52 گنا اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں امریکہ کی صنعتی آؤٹ پٹ میں 6 گنا اور برطانیہ میں 2 گنا اضافہ ہوا۔ سوویت یونین میں محنت کی پیداواریت میں 1310 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں امریکہ اور برطانیہ میں یہ اضافہ بالترتیب 332 فیصد اور 73 فیصد رہا۔ سوویت یونین نے تمام سرمایہ دارانہ دنیا کی نسبت زیادہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان پیدا کیے۔ ظاہر ہے کہ وہاں لوگ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان اس لیے نہیں بنتے تھے تاکہ وہ اپنی نجی املاک میں اضافہ کر سکیں بلکہ دریافت و ایجاد میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ وہ چاہتے تھے کہ سوویت یونین کا وقار دنیا بھر میں اتنا بلند کریں کہ وہ دنیا بھر کے محکوموں کے لیے مشعلِ راہ بن سکے۔ اس سے بڑا محرک شاید نسلِ انسان نے پہلے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی سوچا تھا، جب سوویت افسر شاہی نے اس محرک کی مادی بنیادیں ختم کر دیں تو یہ سارا عمل بھی اپنے الٹ میں تبدیل ہو گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سائنس اور تکنیک کی ترقی کے باوجود محنت کشوں کے اوقاتِ کار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ محنت کشوں سے 12 گھنٹوں سے بھی زائد کام لیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ محنت کش دلجمعی سے کام کریں۔ موجودہ نظام میں کام چوری کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ لوگ کام کرنا نہیں چاہتے بلکہ تقسیمِ کار کے باعث زیادہ تر لوگ وہ کام کرنے پر مجبور ہیں جو وہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ کمیونزم (سوشلزم کا اگلا مرحلہ) میں ’ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق‘ کے اصول کے تحت نظامِ تعلیم اور تقسیمِ کار کو از سرِ نو منظم کیا جائے گا اور چونکہ اشیا کی پیداوار کا مقصد منافع خوری سے بدل کر انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہو گا، لہٰذا تکنیکی ترقی کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کے اوقاتِ کار کم سے کم کر دیئے جائیں گے تاکہ تمام انسان صحتمند تفریحی سرگرمیوں اور سماجی میل جول میں زیادہ سے زیادہ وقت صَرف کر سکیں۔ایسے میں ہر شخص اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرے گا۔ معترضین سوال کرتے ہیں کہ ایسے میں گٹر کی صفائی اور سخت جسمانی مشقت جیسے کام کوئی کیوں کرنا چاہے گا۔ اول تو یہ سوال ہی انتہائی فرسودہ ہو چکا ہے، کیونکہ جس روبوٹک ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر پرولتاریہ کے انقلابی کردار پر شک کیا جاتا ہے، اسی ٹیکنالوجی کو اپنے تصرف میں لاتے ہوئے پرولتاریہ تمام غیر انسانی کام سے انسانوں کو مکمل طور پر نجات دلائے گا۔ پھر اسی ٹیکنالوجی کو مزید نکھارتے ہوئے ہر قسم کی جسمانی مشقت سے یکسر آزادی حقیقت کا روپ دھارے گی۔ یوں ذہنی اور جسمانی محنت کی مصنوعی تقسیم بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں انسان اپنے حقیقی نوعی پوٹینشل یعنی خالصتاً تخلیقی و تعمیری افعال کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر سکیں گے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بھی مزید ترقی دے کر انسان مکمل فراغت حاصل کر کے کائنات کی تسخیر کے حقیقی سفر کا آغاز کر سکے گا۔ یوں لبرل تعصبات کے برعکس فراغت ہر شخص کا بنیادی حق ہی نہیں بلکہ نسلِ انسانی کا مقدر بن جائے گی۔
اسی دلیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ سوشلزم مسابقت یعنی مقابلے بازی کی مادی بنیادیں ختم کر دیتا ہے۔ انسان فطری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا انہیں مصنوعی طور پر مساوی کرنے کی کوشش بہت بڑی حماقت ہے۔ باہمی مسابقت نہ صرف یہ کہ فطری ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بھی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مقابلے بازی کے باعث صارفین کو سستی اور معیاری اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ نیرنگی فطرت کا حسن ہے اور یکسانیت جمود کی علامت ہے اور سوشلزم یکسانیت کو فروغ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ درست ہے کہ سوشلزم مسابقت کی مادی بنیادیں ختم کر دیتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مادی بنیادیں ہمیشہ سے موجود تھیں؟ ہر گز نہیں اگر ہم انسانی تاریخ کا بالعموم اور قبل از تاریخ عہد کا بالخصوص علمی احاطہ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ انسانوں کے مابین مسابقت تاریخی طور پر ایک نئی چیز ہے جس کا آغاز طبقاتی سماج سے ہوا۔لاکھوں سال تک انسان جنگلوں میں موسم، ماحول اور اپنے سے زیادہ طاقتور جانوروں غرض یہ کہ فطرت کے خلاف اپنی بقا کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے تعاون اور یگانگت کی بنیاد پر زندہ رہے۔ اسے ابتدائی اشتراکی دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں انسانوں کے مابین مسابقت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اسی باہمی انحصار اور معاونت نے ہی بنی نوعِ انسان کی بقا کی ضمانت فراہم کی ورنہ درجنوں نہیں سینکڑوں انواع فطرت کے جبر کے ہاتھوں ناپید ہو گئیں۔ اسی سے انسانی سماج کا تصور ابھرا۔ یعنی سماج سے مراد ہی وہ آبادی ہے جو روزمرہ کے معاملات میں تقسیمِ کار کے ذریعے ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہو۔ عظیم مفکر ارسطو نے اسی کارن انسان کو سماجی حیوان قرار دیا تھا گویا انسان معاشرے یعنی دوسرے لوگوں سے یگانگت اور اتحاد کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔
طبقاتی سماج کے ابتدائی مراحل میں یہ مسابقت قدرے مبہم اورفروعی نوعیت کی تھی۔ غلام داری اور جاگیردارانہ سماج میں ریاستی نظم و نسق کی باقاعدہ تشکیل و ترویج کے باعث اگرچہ جنگیں اور تصادم نظر آتے ہیں مگر زیادہ تر یہ ریاستی سطح کے معاملات تک ہی محدود رہے۔ معاشرتی اقدار اور معاشیات میں فرد کی ہر دوسرے فرد سے مسابقت کا تصور خالص سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے۔ نجی ملکیت کے تصور کی حتمی تکمیل نے اپنا اظہار آبادی کی بھاری اکثریت کو ملکیت سے محروم کر کے کیا اور جاگیردارانہ سماج کے کسان اور دستکار جو اپنے آلاتِ پیداوار کے مالک ہوتے تھے، اب دیہی پرولتاریہ بن کر ہر قسم کی ملکیت سے محروم ہو گئے اور شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور کر دیئے گئے۔ صنعتی انقلاب نے پیداواری صلاحیت کو بے نظیر جست لگائی مگر شہروں میں موجود اس بے ملکیتی طبقے کی محنت کو زیادہ سے زیادہ نچوڑے بغیر اس پیداواری صلاحیت کو منافع خوری کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نظام کی ترقی و ترویج کے لیے تاریخی طور پر لازم تھا کہ نہ صرف پیداکاروں بلکہ سرمایہ داروں میں بھی آپسی مسابقت کو فروغ دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل اور افرادی قوت کو سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی وسعت کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ اس تاریخی ضرورت کو ایک نظریاتی اظہار کی ضرورت تھی اس لیے باہمی مسابقت کا یہ نظریہ لبرل معاشیات کے موجد ایڈم سمتھ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’اقوام کی دولت‘ میں متعارف کروایا۔ تب سے لے کر اب تک لبرل خواتین و حضرات اسے انسانی سماج کا جزوِ لاینفک بنا کر پیش کرتے آ رہے ہیں۔بعد ازاں سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کے ارتقا کے مخصوص مرحلے پر اس نام نہاد ’آزاد مقابلے بازی‘ کا بھی خاتمہ ہوا اور اجارہ دارانہ کمپنیوں کی تشکیل کا آغاز ہوا۔ آج ہم اس نظام کی منطقی انتہاؤں کے عہد میں رہ رہے ہیں۔
یوں گزشتہ دو تین سو سالوں میں یہ مسابقت انسانی فطرت کا اہم خاصہ بن گئی۔ انسانی فطرت درحقیقت فطرت ہی کی طرح کوئی مستقل، اٹل، قطعی یا ناقابلِ تغیر شے نہیں ہے۔ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل اور بہتر معیارِ زندگی کے لیے فطرت پر کام کرتے ہیں، اور اپنی محنت سے نہ صرف فطرت کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ خود بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی فطرت کا تعین ان کا ماحول اور حالات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور کے انسان ایک دوسرے سے فطری طور پر مختلف تھے اور مختلف علاقوں میں رہنے والے یعنی میدانی یا پہاڑی یا ساحلی علاقوں کے لوگوں کے اوصاف، خصائص، رہن سہن، کھانا پینا یہاں تک کہ مزاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مسابقت کا معمول انسانی تاریخ میں زیادہ قدیم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب قدرتی آفت، جنگ یا قومی سانحے وغیرہ کی شکل میں کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو انسان باہمی معاونت کے بلبوتے پر اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور اہم اور قابلِ غور نقطہ یہ ہے کہ لبرل مورخین اور ان کا نظام درحقیقت مسابقت یا میرٹ کا محض دکھاوا ہی کرتا ہے عملاً زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی مقابلہ دکھائی نہیں دیتا۔ نظامِ تعلیم کو ہی دیکھ لیں، بحریہ یونیورسٹی یا لمز کے طلبہ کا سرکاری جامعات کا طلبہ سے مقابلہ ایسے ہی ہے جیسے سو میٹر کی دوڑ میں چند لوگ نوے میٹر آگے سے دوڑنا شروع کر یں تو ظاہر ہے ان کا جیتنا یقینی ہوگا۔ اپنے اصل معنوں میں ایک طبقاتی معاشرے میں میرٹ اور مسابقت محض تجریدات ہی رہتے ہیں۔ اس طرح سوشلزم ہر انسان کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کر کے تعمیری مسابقت کا خاتمہ نہیں کرتا بلکہ اس کا محض آغاز ہی کرتا ہے۔ تعمیری مسابقت، یعنی سب لوگ فطرت پر انسانیت کی حتمی فتح کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے سے زیادہ انسانیت کی خدمت کر سکیں۔ یہ سماج کی برق رفتار ترقی کا نقطہِ آغاز ہو گا۔ فطرت پر قدرت حاصل کر کے بنی نوع انسان یکسانیت کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ذہنی اور جسمانی تقسیمِ محنت سے نجات حاصل کر کے اس مشینی یکسانیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائیں گے۔
اس اعتراض کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سوشلزم اجتماعیت کا نظام ہے لہٰذا اجتماعیت کی آڑ میں فرد کے مفادات کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دار ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے طبقے کے طور پر تاریخ کے میدان میں جو جھنڈا اٹھائے داخل ہوئے تھے اس پر جلی حروف میں یہی نعرہ درج تھا ’فرد کی آزادی‘۔ لیکن آبادی کی بھاری اکثریت کو آلاتِ پیداوار کی ملکیت سے یکسر محروم کر دینے کے بعد فرد کی یہ آزادی عملاً سماج کی چھوٹی سی اقلیت پر مشتمل افراد کی باقی ماندہ افراد کی اکثریت کا استحصال کرنے اور انکی محنت کو لوٹنے کی بلا روک ٹوک آزادی بن کر رہ گئی۔ اپنی قوت ِ محنت بیچنے کی ’آزادی‘ کی آڑ میں پرولتاریہ طبقے کو بحیثیتِ مجموعی اپنی ہی پیداوار کے تصرف، ملکیت اور حتیٰ کہ شناخت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس لیے، اس سے قبل کہ ہم جائزہ لیں کہ آیا واقعی سوشلزم فرد کی آزادی کا دشمن ہے، پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ تین سو سالہ تاریخی مسافت طے کرنے کے بعد کیا سرمایہ دارانہ نظام میں آج فرد واقعی آزاد ہے؟ مارچ 2023ء کی عالمی سامراجی ادارے ورلڈ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق عالمی غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور 6.85 ڈالر یومیہ سے کم کمانے والے افراد کی تعداد 46.9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس میں 2019ء کے بعد سے 44 ملین لوگوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 23.6 فیصد لوگ تو 3.65 ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں۔ یوں دنیا کی لگ بھگ آدھی آبادی تو محض چلتی پھرتی لاشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اپریل 2023ء کی یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 6 سے 18 سال کی عمر کے 244 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اس طرح کے بے شمار اعداد و شمار دیے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن افراد کو دو وقت کا کھانا کھانے، تعلیم حاصل کرنے، علاج کرانے اور مناسب چھت کے حصول کی آزادی نہ ہو، کیا انہیں مٹھی بھر افراد کی سارے کرۂ ارض کی سیر و تفریح، جزائر کی خرید و فروخت، سمندروں اور پہاڑوں کی تسخیر کی آزادی کا جشن منانا چاہیے یا محرومی اور لاچاری کی اساس پر انفرادی کی بجائے متحد ہو کر اجتماعی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے؟ کوئی بھی شخص جس کی آنکھوں پر ہوس اور چاپلوسی کی پٹی نہ بندھی ہو اس کا جواب یقیناً آخر الذکر ہی ہو گا۔ یعنی انفرادی نہیں اجتماعی آزادی۔ فرد کی بقا کے لیے الگ الگ لڑائی نہیں بلکہ دو فیصد اشرافیہ کے خلاف طبقاتی جدوجہد۔
زیادہ باریک بین انفرادیت پسند سوال کریں گے کہ جناب یہ بتائیے کہ سوشلزم میں اگر کوئی شخص اپنی ’محنت‘ کی کمائی سے بڑی گاڑی، بنگلہ یا جزیرہ وغیرہ خریدنا چاہے تو کیا اسے آزادی ہو گی؟ تو ہمارا جواب ہو گا ہر گز نہیں۔ دراصل یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات موجودہ حالات اور ان سے منسلک شعور کی پیداوار ہیں۔ کسی بھی شخص کو بڑی گاڑی یا گھر دو وجوہات کی بنا پر چاہیے۔ اول تو یہ کہ غیر معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کے باعث لوگ وقت کے ضیاع اور جسمانی مشقت سے بچنے کے لیے اپنی ذاتی آرام دہ ٹرانسپورٹ رکھنے کو پسند کرتے ہیں اور چونکہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں عموماً افراتفری اور انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے، اس لیے بڑا اور پرسکون گھر جس میں بڑا سا دالان، باغیچہ یا سوئمنگ پول وغیرہ ہو ذہنی اور جسمانی استراحت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دوسری وجہ زیادہ اہم ہے جو پہلی بیان کردہ وجہ کو غیر متعلقہ بنا دیتی ہے۔ وہ ہے سٹیٹس سمبل یا احساسِ برتری۔ سرمایہ دارانہ مسابقت میں ہر شخص دوسرے سے زیادہ کامیاب نظر آنے کی کوشش میں نمبر ون بننے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے، اپنی جسمانی اور ذہنی استراحت سے زیادہ دوسروں کو پسپائی اور احساسِ محرومی میں مبتلا کر کے خود کو تسکین دینا آج ہر شخص کا عمومی نفسیاتی معمول بن چکا ہے، اس لیے امیر سے امیر تر اور پھر امیر ترین بننے کی خواہش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ یہی و جہ ہے کہ کار، بنگلہ یا اس طرح کی تمام اجناس درحقیقت اس سماجی رتبے کا اظہار ہیں۔ اب ایسا معاشرہ تصور میں لایئے جہاں سماجی رتبے کا تعین کموڈٹیز یعنی اجناس کے تصرف کی بجائے علم و تحقیق یا سماجی افادہ میں ادا کیے گیا کردار بن جائے توکیا بڑا گھر اور بڑی گاڑی کی ہوس برقرار رہ پائے گی۔ ہر گز نہیں اور دوسری طرف جب ریاست خود جدید ترین اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ ہر شخص کو گھر کی دہلیز پر مہیا کرے گی اور ایک پر امن معاشرے کا قیام یقینی بنایا جائے گا تو ظاہر ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ کی ضرورت اور اہمیت ختم ہو جائے گی۔ جب سارا جہان، پہاڑ، میدان اور سمندر اجتماعی تصرف کے لیے دستیاب ہوں گے تو نجی جزیرہ خریدنے کی تمنا ہی دم توڑ دے گی۔ غرض یہ کہ مصنوعی مانگ اور قلت کا خاتمہ اس مسابقت کی نفسیات کو ہی ختم کر دے گا جس کی بنیاد پر سوشلزم پر اس قسم کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ پلک جھپکتے ہی ممکن نہیں ہو گا، اس کے لیے ایسی مزدور ریاست درکار ہو گی جو پیداواری قوتوں کی ترقی اور دستیاب وسائل کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے ذریعے اس منزل کے سفر کے مراحل کو آسان اور تیز تر بنانے کا فریضہ ادا کرے گی۔
یوں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے لیے جہاں فرد کی حقیقی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے، ہمیں ایک ایسا عبوری دور درکار ہو گا جہاں چند افراد کی دوسروں کا استحصال کرنے کی آزادی کو سلب کر دیا جائے، اسے کارل مارکس نے کمیونزم کا پہلا یا نچلا مرحلہ (یعنی سوشلزم) قرار دیا تھا۔ اگر حقیقت پسندانہ اور دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو عملیت پسندانہ نقطہِ نظر سے بھی آزادی کے مجرد تصور کی بجائے قابلِ عمل نجی یا انفرادی آزادی سماجی آزادی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے پُرہجوم محلے میں آدھی رات کو کوئی شخص لاؤڈ سپیکر لگا کر اپنی مرضی کی موسیقی سننے کی خواہش میں سارے محلے کی نیند خراب کر کے اسے اپنی انفرادی آزادی قرار دے گا تو بہرحال سماجی ردِ عمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس لیے ایک فرد کی آزادی کو بہرحال بنی نوعِ انسان کی آزادی کے تابع رہ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ہیگل نے وضاحت کی تھی کہ آزادی درحقیقت جبر سے فرار نہیں بلکہ جبر کے شعور کے مرہون ِمنت ہے۔
یہ اعتراض بہت ہی عملیت پسندانہ ہے۔ اس کے لیے دلیل کے طور پر سوویت یونین کا افسر شاہانہ ریاستی ماڈل پیش کیا جاتا ہے اور مارکس اور لینن کے نظریات کی روشنی میں دیئے گئے سوشلسٹ ریاست کے ماڈل کو یکسر نظرا نداز کر دیا جاتا ہے۔ یعنی سوشلزم کو ایک پارٹی کے یا ایک فرد یا گروہ کے آمرانہ یا افسر شاہانہ اقتدار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم اس اعتراض کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نقطہِ نظر کے مطابق سوشلزم اگر جمہوری نہیں ہے تو پھر وہ سوشلزم ہے ہی نہیں۔ عظیم مارکسی استاد لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’سوشلزم کو جمہوریت کی بالکل ویسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ جسم کو آکسیجن کی‘۔ اسی لیے ٹراٹسکی نے 1936ء میں ہی ’انقلاب سے غداری‘ نامی کتاب میں سوویت افسر شاہی کی غلط اور آمرانہ پالیسیوں کے باعث سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق کیا تھا، جو نصف صدی بعد من و عن درست ثابت ہوا۔ لیکن دوسری طرف لبرلز اور انارکسٹوں کی سوویت بیوروکریسی پر تنقید اپنے تئیں انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ انارکسٹوں کے خیال میں ریاست کی ہر شکل ہی جابرانہ ہے، بھلے وہ مزدور ریاست ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے کے بعد سماج کو عوام کی خود روی کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس دلیل کا تاریخی حقائق بیسیوں بار منہ چڑا چکے ہیں۔ 1920ء کی دہائی کے جرمنی اور چین کے انقلابات اور 1930ء کے سپین کے طویل انقلاب سے لے کر عرب بہار اور حال ہی میں سوڈان اور سری لنکا کے انقلابات انارکزم کے دلائل کو مسترد کرتے ہیں۔ دوم لبرلز جمہوریت کو ایک نظام بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا ایک طریقہ ہے اور جب بحرانات کے باعث یہ طریقہ کارگر نہ رہے تو پھر سرمائے کی ننگی آمریت مسلط کر دی جاتی ہے۔ ہر عہد میں پیداواری تعلقات کے ارتقا کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا تصور بھی بتدریج فروغ پاتا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس کا پوٹینشل محض امکانی ہی رہتا ہے، اسے سرمائے کی آمریت سے آزاد کر کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔
سوشلسٹ جمہوریت کا جائزہ لینے سے پہلے سرمایہ دارانہ جمہوریت کا پوسٹ مارٹم بہت ضروری ہے۔ نئی نسل سے اب اس نظام کی منافقانہ جمہوریت کا حقیقی چہرہ چھپانا ممکن نہیں رہا۔ بظاہر عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں دراصل بڑی بڑی کمپنیوں اور اجارہ داریوں کے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہی سامراجی ادارے ان کے انتخابات میں اربوں، کھربوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر اس پر کئی گنا منافع بٹورتے ہیں۔ انتخابات میں مدِ مقابل زیادہ تر پارٹیاں عام طور پر دو فیصد اشرافیہ کی ہی نمائندہ پارٹیاں ہوتی ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی دم چھلہ ہوتی ہیں۔ حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو، ایک ہی طبقہ حکومت کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی جس دھڑے یا گروہ کی ترجمان ہوتی ہے، اسے حزبِ اختلافی دھڑے کی نسبت محنت کش عوام کا خون چوسنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ یوں سارے سرمایہ دار جو بظاہر مذہبی، سیکولر، قوم پرست یا محبِ وطن پارٹیوں میں منقسم ہوتے ہیں بڑے منظم انداز میں باری باری عوام کے خون پسینے سے اپنا حصہ وصولتے رہتے ہیں۔ لینن کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں نام نہاد منتخب حکومتیں دراصل حکمران طبقے کی انتظامی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ اب تو یہ سارا سیاسی گورکھ دھندا سیدھی سیدھی تجارت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پارٹیاں اپنے ٹکٹ فروخت کرتی ہیں اور پارلیمان کے ممبران اپنے ووٹوں کی منہ بولی قیمت لگاتے ہیں۔ لیکن جب بھوک اور افلاس کے مارے عوام اپنا ووٹ ایک وقت کے کھانے کے عوض فروخت کر دیتے ہیں تو یہی لبرل صاحبان ان کو جہالت کے طعنے دیتے ہیں اور اپنی کسمپرسی کا خود عوام کو ہی ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں عوام کو محض ووٹ دینے کی ہی آزادی ہو، ووٹ لینے یعنی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں، ایسا طرزِ عمل تعجب یا حقارت کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ابھی حال ہی میں ایک آڈیو لیک میں سامنے آیا کہ ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا بیٹا تحریکِ انصاف کا ٹکٹ ایک کروڑ بیس لاکھ میں فروخت کر رہا تھا۔ اب یہ نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ برطانیہ میں ایک سال میں تین وزرائے اعظم کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ اب اس نام نہاد جمہوریت کے دن گنے جا چکے ہیں۔
انقلاب کے بعد مزدور ریاست ایک ریڈی میڈ سوشلسٹ جمہوریت اوپر سے مسلط نہیں کرتی بلکہ انقلابی بحران کے دنوں کے ’دوہرے اقتدار‘ میں اس کی کونپلیں سماج کے رگ و ریشے سے پھوٹتی ہیں، جنہیں عرفِ عام میں ہڑتالی کمیٹیاں اور زیادہ ترقی یافتہ شکل میں سوویتیں کہا جاتا ہے۔ انقلاب کی فیصلہ کن فتح کے بعد دوہرے اقتدار کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اقتدار مکمل طور پر سوویتوں کو منتقل ہو جاتا ہے اور پھر انہی سوویتوں کی خام اشکال کو دیہاتوں، دفاتر، فیکٹریوں اور ضلعی و صوبائی سطح سے لے کر ایک مرکزی سوویت کانگریس تک منظم کیا جاتا ہے اور یوں ایک مزدور ریاست جنم لیتی ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی میکانکی تقسیم کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور منتخب نمائندوں کو تمام انتظامی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ کسی منتخب نمائندے یا انتظامی سربراہ کی تنخواہ ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوتی اور ان کی کوئی خاص مدت ملازمت وغیرہ نہیں ہوتی اور کسی بھی وقت متعلقہ سوویت کے اکثریتی ووٹ کی بنا پر واپس بلایا جا سکتا ہے اور سوویتوں کے انتخابات کا انعقاد اور وقت وغیرہ کا تعین بھی متعلقہ سوویتیں خود کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں آبادی کی بنا پر محلے وغیرہ کی سوویتیں اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں شہروں میں صنعتوں کی بنیاد پر اسی طرح انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر یہ علاقائی سوویتیں ضلعی کمیٹیوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں۔ سوویتوں کی ضلعی کانگریس اپنے انتظامی سربراہان کا انتخاب کرتی ہیں۔ اسی طرح مرکزی سوویت کانگریس کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کا سال میں دو بار اجلاس منعقد کرنا مرکزی انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے مرکزی سوویت منتخب کرتی ہے اور اس کے ممبران کو بھی کسی بھی وقت علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کی تمام باقیات کا صفایا کر دیا جاتا ہے لہٰذا پیشہ ور جج صاحبان اور ماہرینِ قوانین وغیرہ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ ججوں کا انتخاب سوویتوں میں کیا جاتا ہے اور فریقین کو براہِ راست اپنا مقدمہ لڑنے کی اجازت ہوتی ہے مگر وہ اپنے نمائندگان بھی منتخب کر سکتے ہیں۔ ہمارے سماج میں چونکہ ابھی تک قبائلی نظام کی باقیات موجود ہیں، اسی لیے پنچایتی نظام بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سوشلزم میں ملکیتی رشتوں کے یکسر بدل جانے کے باعث اسی پنچایتی نظام کو ایک زیادہ جدید اور موثر شکل میں قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ منتخب جج صاحبان کی تنخواہ بھی ہنر مند مزدوروں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ایک باقاعدہ، مستقل اور پیشہ ور فوج کا موجودہ شکل میں بالکل خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ ’دوہرے اقتدار‘ کے دنوں میں فوج میں ہونے والی بغاوتوں کے نتیجے میں بننے والی انقلابی کمیٹیوں سے شروع کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی ایک نئی سرخ فوج تعمیر کی جاتی ہے جس کے افسران کا سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے جمہوری طور پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہر شہری کو کسی نہ کسی سطح کی فوجی ٹریننگ دی جاتی ہے اور مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر مشتمل عوامی ملیشیا بھی تخلیق کی جاتی ہے جو مزدور ریاست کے دفاع کے لیے سرخ فوج کی نرسری کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ سابقہ استحصالی طبقات کے علاوہ 16 سال سے 40 سال تک کی عمر کے ہر شہری کو فوجی خدمات سر انجام دینے اور رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ کھلے عام انقلاب کے باغیوں کے علاوہ ہر کسی کو اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دینے کا حق ہوتا ہے۔ یہ مزدور ریاست انسانی تاریخ کی ایک منفرد ترین ریاست ہوتی ہے جو اپنے قیام کے فوری بعد سے ہی اپنے ہی خاتمے کی جدوجہد شروع کر دیتی ہے اور اختیارات کی گراس روٹ لیول تک عملی منتقلی کی رفتار کا دارومدار پیداواری قوتوں کی ترقی، فیصلہ سازی میں عوامی شمولیت اور عالمی انقلاب کی پیش رفت پر ہوتا ہے۔تاہم اس عبوری دور میں مزدور ریاست جہاں بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتی ہے وہیں سرمایہ دارا نہ نظام کی باقیات کے از سرِ نو منظم ہونے کی ہر کوشش کو ناکام بنانا بھی اسکی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے۔ یوں اگر جمہوریت سے مراد فیصلہ سازی میں عوام کی شمولیت ہے تو اسکی تکمیل صرف اور صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
یہ بھی سوشلزم کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے مؤثر اعتراض ہے۔ بالخصوص پاکستان، جو بنایا ہی مذہب کے نام پر گیا ہے، میں تو سوشلسٹوں کے خلاف اسے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین کی معاشی اور سیاسی حاصلات کے باعث جب انقلاب کا پیغام سارے کرۂ ارض میں تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو سامراجیوں نے مذہب کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور سوشلزم کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس کے لیے انہیں زر خرید مذہبی اکابرین کی خدمات میسر آئیں۔ ایسے مذہبی سکالرز اور اکابرین جو سوشلزم سے ہمدردی رکھتے تھے، ان کی کردار کشی کی گئی اور ان پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کے لیے عام طور پر مارکس کا یہ مشہور قول کہ ’مذہب لوگوں کے لیے افیون ہے‘ سیاق و سباق سے کاٹ کر استعمال کیا گیا۔ مارکس کے اصل الفاظ کچھ یوں تھے کہ ’مذہبی ابتلائیں اصل میں بیک وقت حقیقی مصائب کا اظہار بھی ہیں اور ان کے خلاف احتجاج بھی۔ مذہب مجبو رو محکوم مخلوق کی آہ و بکا ہے، بے دل دنیا کا دل ہے اور بے روح حالات کی روح ہے۔ مذہب لوگوں کے لیے افیون ہے۔ ‘یہاں مارکس نے ایک نظریہ دان کی حیثیت سے اپنے جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار کی بنا پر مذہب کی ابتدا، تاریخی ارتقا اور سماجی محرکات کا شاندار احاطہ کیا ہے۔ لیکن مارکس کے مؤقف کو مسخ کر کے یوں پیش کیا جاتا ہے گویا مارکس کا یعنی سوشلزم کاحتمی مقصد ہی مذہب کا خاتمہ ہے۔ یہ سراسر غلط ہے، سوشلزم استحصال اور جبر کی ہر شکل کے خاتمے کی جدوجہد ہے اور بدقسمتی سے مذہبی اشرافیہ (ملاں، پنڈت، پادری صاحبان وغیرہ) اسی جبر اور استحصال کے دفاع پر اتر آتی ہے تو محنت کش طبقے پر انسانیت کی نجات کے لیے اسے روندتے ہوئے آگے بڑھنا فرض ہو جاتا ہے۔
سوشلسٹوں کے لیے مذہب ہر شخص کا نجی معاملہ ہے۔ مذہب کو ریاست اور فیصلہ سازی کے امور سے علیحدہ کر کے ایک سیکولر ریاست بنانے کا تاریخی فریضہ درحقیقت سرمایہ دار طبقے کا تھا مگر اپنی نامیاتی کمزوری کے باعث وہی سرمایہ دار طبقہ اب مذہب کو ریاست کے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ عملاً سرمایہ دار طبقہ غیر مذہبی ہوتا ہے، منافع اور شرحِ منافع ہی اس کا اصل مذہب ہوتا ہے مگر وہ درمیانے طبقے کے ’شناخت کے بحران‘ اور ہیجانی طبیعت کو مذہب کے نام پر ورغلا کر فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے اور پرولتاریہ کی سیاسی جدوجہدوں کو کُند کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جمود کے ادوار میں پرولتاریہ کی پچھڑی ہوئی پرتیں بھی اس کے لیے خام مال کا کام کرتی ہیں مگر جونہی انقلابی دور کا آغاز ہوتا ہے پرولتاریہ تمام قسم کے توہمات کو پسِ پشت ڈال کر دیگر مظلوم طبقات کو اپنی قیادت میں منظم اور متحد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور جب یہی محنت کش طبقہ اپنی استقامت اور ثابت قدمی کے ذریعے ایک سوشلسٹ قیادت کی رہنمائی میں اقتدار حاصل کرتا ہے تو وہ ان توہمات کی مادی بنیادوں کے خاتمے کی جدوجہد کو تیز تر کر دیتا ہے۔ سوشلسٹ ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا اور شہریوں کو کوئی بھی مذہب رکھنے یا کوئی بھی مذہب نہ رکھنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ مذہب کی بنا پر شہریوں کی شناخت یا امتیازی سلوک کے ہر امکان کو سختی سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقائد کی روشنی میں زندگی گزارنے کی مکمل آزادی دی جاتی ہے مگر کسی بھی دوسرے فرد اور گروہ پر اپنے عقائد مسلط کر نے کی سخت ممانعت ہوتی ہے۔ مذہبی اشرافیہ کی تمام سرکاری مراعات کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور عبادت گاہوں کو سرکاری انتظام و انصرام میں بطورِ احسن چلایا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ انتشار پھیلانے اور اشتعال دلا کر سماج میں امن و امان کے مسائل پیدا کرنے کے لیے استعمال نہ ہوں۔ نظامِ تعلیم اور علاج کے شعبے میں مذہب کی مداخلت ختم کر دی جاتی ہے اور نصابِ تعلیم کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ ہنر مند مزدوروں کی پیداواریت میں اضافہ کرتے ہوئے اشیائے ضرور یہ کی بہتات اور فراوانی کے ذریعے عوام کا معیارِ زندگی بلند ترین سطح پر لایا جائے۔ فلکیات اور طبیعات سمیت تمام سائنسی علوم میں بے نظیر ترقی کے بغیر سوشلزم کبھی تعمیر نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے نظامِ تعلیم کو ہر قسم کے توہمات اور تعصبات سے پاک کرنا بنیادی شرط ہوتی ہے۔ دم درود کے ذریعے علاج معالجے کا ہر کاروبار بند کر دیا جاتا ہے اور ہر شخص کو ہر سطح پر مفت تعلیم اور علاج فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یوں عملاً ایک سوشلسٹ ریاست میں ایک سرمایہ دارانہ ریاست سے زیادہ مذہبی آزادی ہوتی ہے تاہم ریاستی امور کی باگ ڈور سائنسی شعور رکھنے والے سرگرم سوشلسٹ مزدوروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو عوام کی رہنمائی کا تاریخی فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
یہ اعتراض بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جس کا پاکستان جیسے ممالک میں کم و بیش ہر سوشلسٹ انقلابی کو کبھی نہ کبھی ضرور سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سائنسی سوشلزم کے بانی کارل مارکس نے یہ نعرہ دیا تھا کہ ’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مارکس قوموں کے ثقافتی وجود سے ہی انکار کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلسٹ سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی بات تو کرتے ہیں مگر قومی آزادی کی تحریکوں کو نظرا نداز کر دیتے ہیں۔ ہم اس اعتراض کو بھی مسترد کرتے ہیں کیونکہ ہم قوموں کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ مزدور تحریک کے سیاسی پروگرام میں قومی آزادی کو جزوِ لاینفک بھی سمجھتے ہیں۔اختلافی نقطہ یہ ہے کہ ہم قومی مسئلے کو رومانوی یا جذباتی انداز میں دیکھنے کی بجائے اسے تاریخی پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوم کوئی ازلی اور ابدی شے نہیں ہے بلکہ تاریخی ارتقا کے مخصوص مرحلے پر قوم کا جنم ہوا اور ان تاریخی لوازمات کی عدم موجودگی یا نفی کی صورت میں قوم کا وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ قوم لبرل قوم پرستوں کے دعووں کے برعکس زیادہ پرانی اصطلاح نہیں ہے بلکہ صنعتی انقلاب کے بعد قومی جمہوری انقلابات میں جدید اقوام سیاسی اور معاشی اکائیوں کی صورت میں تاریخی اُفق پر نمودار ہوئیں۔ اسی طرح زبانیں بھی ہمیشہ ارتقا پذیر رہتی ہیں اور بہت سی پرانی زبانیں آج معدوم ہو چکی ہیں اور ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی کے زیرِ اثر مختلف خطوں میں نئی زبانوں کی تشکیل جاری و ساری ہے۔
صنعتی انقلاب میں ذرائع پیداوار کی جست نے ایک جیسی یا مختلف زبانیں بولنے والے درجنوں قبائل کو معاشی تعلقات کے نئے بندھنوں میں جوڑ کر جدید اقوام کی تشکیل کا فریضہ سر انجام دیا۔ جن ممالک میں قومی جمہوری انقلابات برپا نہ ہو سکے، وہاں آج بھی ا قوام اپنی تکمیل کے عبوری دور سے گزر رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً قبائلی تنازعات سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ قوم پرست قومی وجود کو داخلی تضادات سے مبرا سمجھتے ہیں اور ٹھوس، قطعی اور ناقابلِ تغیر قرار دیتے ہیں۔ سوشلسٹوں کے خیال میں قومیں سرمائے اور محنت کے تضاد سے آزاد نہیں ہوتیں، ہر قوم میں دو طبقات موجود ہوتے ہیں، ان کے درمیان طبقاتی کشمکش بھی موجود ہوتی ہے، وہ کبھی ماند پڑ جاتی ہے اور کبھی شدت اختیار کر کے نظام کی ہی کایا پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔ سوشلسٹ جیسے طبقاتی استحصال کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں ویسے ہی قومی و لسانی جبر کی بھی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ تمام اقوام کا حقِ خود ارادیت تسلیم کرتے ہیں مگر ہم اس قومی جبر کو معاشی جبر سے کاٹ کر نہیں دیکھتے۔ ہمارے نزدیک سرمائے کی زنجیروں سے آزادی کے بغیر کبھی حقیقی آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے ہم قومی آزادی کی جمہوری تحریکوں میں اپنے واضح بینر اور پروگرام کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تاکہ مظلوم اقوام کے محنت کشوں کو ایک انقلابی پروگرام میں جوڑ کر عالمی مزدور تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سامراجی نظام کا ہی خاتمہ کیا جا ئے جو قوموں کے وسائل کی لوٹ مار کا آئینی، قانونی اور اخلاقی جواز مہیا کرتا ہے۔ نجی ملکیت کے مقدس حق کے خاتمے سے ہی وہ محرک ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے جو حکمرانوں کو سٹریٹیجک بنیادوں پر دیگر اقوام کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے قومی و لسانی جبر پر مجبور کرتا ہے۔مزدور طبقہ جب برسرِ اقتدار آتا ہے تو چونکہ اپنے ہی طبقاتی وجود کا خاتمہ کرنا اس کا تاریخی فریضہ ہے لہٰذا وہ تمام اقوام کا حقِ خود ارادیت بشمول حقِ علیحدگی تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔
اس لیے ہم مزدور طبقے کی قیادت میں مختلف اقوام کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس فیڈریشن میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والی اقوام کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیڈریشن کی مرکزی سوویت کے دو ادارے بنائے جاتے ہیں، یعنی قومیتوں کی کونسل بھی تشکیل دی جاتی ہے، جس کے ذمہ داران کا انتخاب مقامی سوویتوں کے ذریعے جمہوری بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کونسل کو ہر قسم کی قانون سازی میں فیصلہ کن اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح چند ایک بنیادی قوانین کے علاوہ بہت سے قوانین میں مقامی بنیادوں پر مقامی سوویتوں کے ذریعے ترامیم کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے۔ ایک سوشلسٹ ریاست میں تمام زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ دے کر ہر شخص کا اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ قومیتوں کی کونسل اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تمام نصابی و غیر نصابی اہم کتب ہر زبان میں شائع کی جا سکیں۔ اس طرز کے اقدامات سے بغیر کسی جبر، غیر ضروری مداخلت اور مرکزی اتھارٹی کے تسلط کے فیڈریشن میں موجود تمام اقوام ایک دوسرے پر انحصار اور اعتماد کے رشتے کو فروغ دیتے ہوئے ایک نئی سماجی و سیاسی اکائی میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ مگر اس خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنے سے پہلے اس ہولناک سفاکیت جسے سامراجیت کہا جاتا ہے کو صفحہِ ہستی سے مٹانا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے تمام مظلوم اقوام اور طبقات کی الگ الگ تحریکیں ناکافی ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی تمام مزدور تحریکوں اور عوامی انقلابات کو قومی، لسانی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ہر وہ سیاسی رجحان جو عوامی انقلابات میں قومی و نسلی یا لسانی تعصبات کا پرچار کرتا ہے، بھلے وہ اس کے لیے باقاعدہ معاوضہ قبول نہ بھی کرے، دانستہ یا غیر دانستہ سامراج کی ہی خدمت سرانجام دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نمو نے ایک عالمی منڈی اور عالمی تقسیمِ محنت کو جنم دیا ہے جس کے باعث عالمی مزدور تحریک کی جڑت اور یکجہتی کے معروضی لوازمات مارکس کی پیشن گوئی کے عین مطابق تیار ہو چکے ہیں، اب اصل کام ان معروضی لوازمات کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی ریاست اور نجی ملکیت کی مصنوعی زنجیروں سے مکمل آزادی کا حصول ہے۔ اس لیے آج یہ نعرہ ڈیڑھ سو سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ متعلق، موثر، قابلِ تقلید اور قابلِ عمل ہے کہ ’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘۔
یہ سوشلزم پر اٹھائے جانے والے قدیم ترین اعتراضات میں سے ایک ہے۔ ان معترضین کی دلیل یہ ہے کہ سوشلزم بورژوا خاندان کے خاتمے کا علمبردار ہے اور چونکہ سوشلزم اجتماعی ملکیت کا نظام ہے لہٰذا سوشلزم میں عورتوں کو بھی اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ اس اعتراض کے اندر ہی اس کا جواب پوشیدہ ہے۔ یہ قدامت پسند، رجعتی معترضین یہ بھول جاتے ہیں کہ خاندان کی موجودہ کیفیت جس میں سرمایہ دارانہ منافقت سب سے زیادہ مجتمع شدہ شکل میں کارفرما ہے، ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ لاکھوں سال تک بنی نوعِ انسان اس کرۂ ارض پر ایک کھلے آسمان کے نیچے ایک خاندان کے طور پر ہی موجود رہے۔ پھر معاشی تعلقات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ خاندان کا ظہور ہوا جو اجتماعی یا گروہ وار شادیوں کے طویل دورانیوں پر مبنی رسوم و رواج سے ہوتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام میں یک زوجگی کے موجودہ مرحلے تک پہنچا اور سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے باعث اس کی پوری ریاست کی مانند خاندان کے ادارے کی بھی شکست و ریخت اب کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ سوشلسٹ اس ادارے کی ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار نہیں ہیں، وہ تو صرف نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ یکطرفہ اور منافقانہ یک زوجگی بھی اس نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گی اور اس کو حقیقی، مخلصانہ اور انسانی شکل میں نافذ العمل بنانے کے لیے نجی ملکیت کے ”مقدس“ حق کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ جب سوشلسٹ تمام ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اس پر تنقید کرنے والے خواتین کی ’ملکیت‘ کا سوال اٹھا کر خود یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک خواتین بھی پیداوار یعنی بچوں کی پیدائش کے ذریعے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
جی ہاں ہمارے ناقدین اور معترضین خواتین کو اشیا یا بچے پیدا کرنے والی مشینیں ہی سمجھتے ہیں۔ ہم سوشلسٹ خواتین کو جیتی جاگتی انسان سمجھتے ہیں اور برملا اعلان کرتے ہیں کہ بورژوا خاندان عورت کی غلامی کا ادارہ ہے جہاں بدترین جنسی غلامی کے ساتھ ساتھ عورتوں سے بیگار کی جبری مشقت بھی کروائی جاتی ہے۔ سوشلسٹ ریاست اپنے قیام کے آغاز سے ہی اپنی تمام تر توجہ اور وسائل اس امرپر وقف کردیتی ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق دے کر ان کی سماجی حیثیت جلد از جلد کیسے تبدیل کی جائے۔ سب سے پہلے تو بیگار کی گھریلو محنت یعنی صفائی، دھلائی، بچوں کی نگہداشت، کھانا پکانا جیسے وہ تمام افعال جن کو تقسیمِ محنت میں فطری طور پر عورتوں سے منسوب تصور کیا جاتا ہے، انہیں سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کرنے کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ زچہ بچہ سنٹرز، بچوں کی نگہداشت کے مراکز، سماجی طعام خانے، اجتماعی لانڈریاں اور فرسٹ ایڈ کے مراکز ہر گلی محلے تک تعمیر کرنے کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ سوشلسٹوں کے نزدیک مامتا کی آزادی سوشلسٹ ریاست کا سب سے پہلا اور بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم ’ماں کے پاؤں تلے جنت ہے‘ یا ’ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں‘ جیسے جذباتی جملے بولنے کے باوجود ماں کی بے پناہ جسمانی مشقت کو بیدردی سے لوٹتے ہیں اور اس پر ہر قسم کی ندامت سے بچنے کے لیے ہی اس قسم کی کھوکھلی اخلاقیات کا نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔عورتوں کے عمومی سماجی مقام کی طرف بھی ہمارا یہی وطیرہ ہے۔ ’عورتوں کا احترام کرو، یہ کسی کی عزت اور غیرت ہیں‘ وغیرہ وغیرہ یہ سب ہماری دوغلی اور کھوکھلی اخلاقیات کی ملمع کاری اور شعبدہ بازی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ عورتوں کے احترام کے ناٹک کی آڑ میں جنسی ہراسمنٹ اور بدتمیزی کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے، اور پھر نجی محفلوں میں اس پر قہقہے لگا کر اپنی چالاکی اور چست دماغی پر داد و تحسین وصول کی جاتی ہے۔ سوشلزم چونکہ ان گھٹیا اخلاقی اقدار کو ختم کر دینے کے درپے ہے اس لیے اس کے خلاف محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ اعتراض اصل میں یہ نہیں کہ سوشلزم میں عورتوں کو سماجی ملکیت بنا دیا جاتا ہے بلکہ اصل اعتراض یہ ہے کہ عورتیں جن کو اصل میں سماجی ملکیت ہی سمجھا جاتا ہے اور انہیں ہر جگہ ہراسمنٹ اور ہولناک نظروں کے نشتر جھیلنے پڑتے ہیں، انہیں ملکیت کے موجودہ دوغلے اور منافقانہ سماجی معیارات سے آزاد کرا کے با اختیار اور مضبوط بنا کر سوشلزم جبر اور استحصال کا خام مال نہیں رہنے دیتا، یوں ان شاونسٹوں کے پدرانہ ’حقوق‘ پامال ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اور سوشلزم میں ساتھ ہی عورتوں کی سستی محنت کے ذریعے معاشی استحصال کی گنجائش بھی ختم کر دی جاتی ہے۔
فیمینسٹ دوسری انتہا پر جا کر عورتوں پر روا رکھے جانے والے جبر کی تمام تر ذمہ داری طبقاتی نظام پر لاگو کرنے کی بجائے مرد ذات اور اسکی نفسیات پر لگا کر مزدور تحریک میں صنفی بنیادوں پر دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ عورت کی سیاسی و معاشی آزادی کی تحریک بحیثیتِ مجموعی مزدور تحریک کی پیش رفت کے لیے صرف سود مند ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے، اس لیے مزدور تحریک کا سیاسی پروگرام اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہو سکتا جب تک اس میں عورتوں کی آزادی اور فلاح و بہبود کے واضح اور غیر مشروط مطالبات اور عملی نکات شامل نہ کیے جائیں۔ صرف اجرتوں کی مثال ہی لے لیجیے۔ خواتین محنت کشوں کی نصف یا غیر مساوی اجرتوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محنت کی منڈی میں سستی رسد کے باعث مانگ کم ہونے کی وجہ سے اجرتوں میں اضافے کی عمومی شر ح یا رجحان افراطِ زر کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہی رہتی ہے۔ اس لیے مزدور تحریک اور خواتین کی آزادی کی تحریک میں ایک نامیاتی اشتراک موجود ہے جسے مسدود کرنے کی ہر کوشش ردِ انقلابی اور رجعتی اقدام ہی تصور کیا جائے گا۔ یوں خواتین محنت کشوں کو الگ سے اور مزدور تحریک سے یکسر کٹ کر صنفی جبر کے خلاف منظم ہونے کی بجائے طبقاتی جنگ کے سرخ بینر کے ساتھ ہی اس لڑائی کو لڑنا ہو گا۔ سوشلسٹوں کو خواتین محنت کشوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ایک مزدور ریاست کس طرح ان کی آزادی کو عملی جامہ پہنائے گی۔ مثال کے طور پر ایک سوشلسٹ ریاست میں خواتین محنت کشوں کی اجرتیں مرد محنت کشوں کے مساوی کر دی جاتی ہیں، عورتوں کو طلاق اور اسقاطِ حمل کا حق دیا جاتا ہے اور جسم فروشی کی لعنت اور تمام کالے قوانین کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے عورت کی نجی ملکیت کی حیثیت ضرور ختم ہوتی ہے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ اجتماعی ملکیت بن جاتی ہیں بلکہ وہ ملکیت کے تسلط سے آزاد ہو کر انسان کے رتبے پر فائز ہو جاتی ہیں۔نجی ملکیت اور طبقاتی سماج کے خاتمے کے باعث شادی، بیاہ اور جنسی تعلقات میں ذاتی سٹیٹس، سماجی رتبے، ذات پات، برادری اور جہیز جیسی ہر طرح کی لعنت ختم کر کے مرد اور عورت کے مابین خالص انسانی رومانی و جنسی تعلقات کا آغاز ہو پاتا ہے، جہاں واقعی ایک انسان دوسرے انسان سے اس کی سوچ، فطری کشش، بصیرت، اقدار اور فکری ہم آہنگی کی بنیاد پر ہی تعلق استوار کرتا ہے اور عورت کو میسر طلاق کے حق اور بچوں کی نگہداشت کی سماجی ذمہ داری کی شکل میں اس تعلق میں جبر کی رتی بھر گنجائش بھی باقی نہیں بچتی۔ یک زوجگی کی اگر کوئی شکل (Form) واقعی قابلِ عمل ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے جو صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
آج کل سیاسی حلقوں میں اور بالخصوص یونیورسٹیوں کے طلبہ میں مارکسزم کے خلاف یہ بدگمانی بھی منظم پروپیگنڈے کے تحت پھیلائی جاتی ہے کہ مارکسزم تو یورپی فلسفہ ہے اور اسے دنیا بھر کے انقلابات کے لیے ایک نسخہِ کیمیا بنا کر پیش کرنا سراسر حماقت ہے۔ تیسری دنیا یا سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے ٹھوس معروضی حقائق، ثقافتیں، ریاستی اشکال، سیاسی انفراسٹرکچر اور طبقاتی توازن یورپ سے یکسر مختلف ہیں لہٰذا سامراجی نظام کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کا تصور کسی یوٹوپیے سے کم نہیں۔ تیسری دنیا کے عوام زیادہ تر غیر پرولتاری ہیں یعنی کسان یا دستکار وغیرہ ہیں اور وہ طبقاتی شعور سے ابھی تک بے بہرہ ہیں، حتیٰ کہ تیسری دنیا کا پرولتاریہ بھی مغربی پرولتاریہ سے کہیں زیادہ اپنی قومی بورژوازی یا دیگر مقامی حکمران طبقات کے ساتھ ثقافتی، لسانی و سماجی بندھنوں میں بندھا ہوا ہے لہٰذا یہاں قومی یا عوامی تحریکوں کے ذریعے ریاست پر دباؤ بڑھا کر عوام کے حق میں چند قانونی یا معاشی اصلاحات تو جیتی جا سکتی ہیں مگر عالمی مزدور تحریک کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے خاتمے کا بیانیہ سراسر غیر متعلقہ اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس طرح کے نظریات مین سٹریم میڈیا میں بھی بہت جلد پاپولر ہو جاتے ہیں اور بالخصوص مقامی قوم پرست تو انہیں فوراً ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سستی شہرت کی ہوس میں مبتلا پیٹی بورژوا دانشوروں کے کھوکھلے دماغ بہت جلد ان خیالات کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سائنسی سوشلزم کے نظریات کا جنم یورپ میں ہوا مگر خود سائنسی سوشلزم کے بانیوں (کارل مارکس، فریڈرک اینگلز) نے ہی ان تاریخی لوازمات کی وضاحت بھی کی جن کی بنیاد پر یورپ صنعتی انقلاب کا مرکز بنا اور بعد ازاں انہوں نے پیش بینی بھی کی کہ صنعتی انقلاب سے جنم لینے والے پیداواری پوٹینشل کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے قومی منڈی کی حدود ناکافی ہو جائیں گی اور ایک عالمی منڈی کی تشکیل ناگزیر ہو گی۔ یہ تناظر درست ثابت ہوا اور یورپی سامراج کی دنیا بھر میں معاشی پیشرفت، سیاسی مداخلت اور تسلط کے باعث پسماندہ ممالک میں بھی مسخ شدہ شکل میں ہی سہی مگر سرمایہ دارانہ ملکیتی اور پیداواری تعلقات حاوی ہو گئے۔ یوں قدیم سماجی تعلقات کی باقیات بھی بہرحال موجود رہیں مگر قومی جمہوری انقلاب کے بغیر ہی سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے طول و عرض میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
یوں سوشلزم کوئی ایسا کلیہ نہیں ہے جسے زمان و مکاں کے امتیاز سے بالاتر کبھی بھی اور کہیں بھی ایک ہی شکل اور طریقے سے لاگو کر دیا جائے۔ مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھڑے ہوئے پسماندہ معاشروں میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کے راستے بھی مفقود ہو چکے ہیں۔ عالمی تقسیمِ محنت اور ٹیکنالوجی کی عالمگیریت کے باعث معاشی و ثقافتی ناہمواریت نے ترقی کی مشترکہ راہیں بھی متعین کی ہیں اور عالمی مزدور تحریک بذاتِ خود ایک معروضی حقیقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ حتیٰ کہ شعور کی عالمگیریت سے درمیانے طبقے کی ہراول پرتیں بالخصوص نوجوان بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہے ہیں، جس کی سب سے بڑی مثال 2011ء میں ’ہم ننانوے فیصد ہیں‘ کے نعرے پر آکو پائی وال سٹریٹ کے نام سے چلنے والی تحریک کی کال پر ایک ہی دن میں دنیا کے 950 سے زائد شہروں میں ایک ہی مطالبے پر ہونے والے عوامی احتجاج ہیں۔ اس تحریک نے سابقہ ورلڈ آرڈر کی نام نہاد پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی تقسیم کو عالمی شعور کی ٹھوکر سے لرزا کر رکھ دیا۔ اسی طرح کی صورتحال ہمیں لگ بھگ ایک دہائی بعد گلوبل وارمنگ کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجوں میں نظر آئی۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ آج دنیا بھر کے محنت کشوں کے مفادات مشترکہ ہیں اور ان کا دشمن یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو قومی نہیں عالمی سطح پر منظم ہے لہٰذا اس کے خلاف مزاحمت بھی عالمگیر خواص کی حامل ہونی چاہیے۔ مگر اس جدوجہد کو مخصوص ثقافتی پسِ منظر اور طبقاتی شعور کی سطح کے مطابق مربوط اور منظم کرنے کی گنجائش اور ضرورت بہرحال موجود رہتی ہے۔ یہ کہنا کہ تیسری دنیا میں ابھی انقلابات ناممکن ہیں، نری بکواس اور جہالت ہے کیونکہ تیسری دنیا میں غربت، افلاس، لاعلاجی، خانہ جنگیاں اور قحط وغیرہ کی صورتحال مغربی دنیا سے کہیں زیادہ بھیانک اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اور اس کی ذمہ داری اسی سرمایہ دارانہ نظام پر عائد ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کی ان کمزور کڑیوں میں عوامی بغاوتوں اور تحریکوں کے امکانات کہیں زیادہ ہیں مگر یہ عوامی تحریکیں حکومتی تبدیلی کا موجب تو بن سکتی ہیں مگر نظام کی تبدیلی کے لیے انہیں طبقاتی بنیادوں پر خطے کی مزدور تحریکوں سے جوڑتے ہوئے محنت کش طبقے کی قیادت میں منظم کرنا ہو گا۔
پاکستان میں بھی جہاں سوشلسٹ نظریات بہت تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں وہیں مڈل کلاس دانشوروں کی فرسٹریشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں بھی سوشلزم پر یہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ جیسے قبائلی معاشروں میں صورتحال سندھ کے شہری علاقوں اور پنجاب سے یکسر مختلف ہے لہٰذا پورے خطے میں سوشلسٹ تحریکوں کا بیانیہ مجرد عمومیت (Generalization) ہے۔ یہاں ’ریاست مخالف عوامی تحریکیں‘ موجود ہیں اور انہی کے ذریعے سماج کی انقلابی تبدیلی ممکن ہے۔ مزدور تحریک چونکہ پورے خطے میں ہی فی الوقت موجود نہیں تو عملیت پسندانہ اور ثبوتیت کا طریقہ استدلال استعمال کرتے ہوئے مستقبل میں بھی اس کے امکانات کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرزِ استدلال کی بنیاد پر ان قبائلی علاقوں میں محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں مقداری اور معیاری طور پر محنت کش طبقے کا حجم مغربی معاشروں سے بہت کم ہے مگر معدنیات، چھوٹی اور گھریلو صنعت، تعمیرات، ذرائع ابلاغ، ٹیلی کمیونیکیشن، ریلوے، پانی و بجلی، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں محنت کشوں کی قابلِ ذکر تعداد ضرور موجود ہے۔ اور ان علاقوں میں مزدور طبقے کے سیاسی معیار کے جس فقدان کے باعث کہا جاتا ہے کہ ان خطوں کا انقلاب سیاسی طور پر خطے کی دیگر تحریکوں سے نامیاتی طور پر لاتعلق ہے، درحقیقت عین اسی وجہ کی بنا پر ہی ان علاقوں کا سیاسی مستقبل خطے کی سیاسی تحریکوں سے اٹوٹ تعلق میں مرتبط اور ناقابلِ علیحدگی ہے۔ مزدور طبقے کے سیاسی معیار کے اس فقدان کو درمیانے طبقے کی سیاسی قیادت کے ذریعے سے مصنوعی طور پر پورا کرنے کی کوشش مہم جوئی اور مفاد پرستی کی پل صراط کی طرف لے جاتی ہے جہاں سے کسی بھی ایک طرف لڑھکنا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ درمیانے طبقے کی قیادت میں چلنے والی ریاست مخالف تحریکیں بلاشبہ قابلِ تحسین و ستائش ہوتی ہیں مگر ان کا کردار مزدور تحریک کے راستے کے کانٹے صاف کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کو کمزور کرنا ہی ہوتا ہے، اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کا تاریخی فریضہ صرف محنت کش طبقے کی قیادت میں ہی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ان تحریکوں کو خطے کی مزدور تحریک سے جوڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی طرف آگے بڑھنا ہو گا اور پھر اس خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تمہید بنے گی۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے اس سفر کی سمت اس کے برعکس بھی ممکن ہے، یعنی لاطینی امریکہ، مشرقِ وسطیٰ یا کسی بھی دوسرے خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہمارے خطے میں سوشلسٹ انقلاب کے سفر کو مہمیز دے سکتی ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کو اب تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی اسے سوشلزم کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ دیکھیں جی سوشلزم کا تجربہ تو ناکام ہو چکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ روزمرہ کے معمولات، علمی، منطقی اور نظریاتی میدان میں چونکہ سوشلزم پر سرمایہ داری کی سبقت ثابت کرنا ممکن ہی نہیں رہا لہٰذا سوویت یونین کے انہدام کی لکیر پیٹنے کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے۔ سچ کہیے تو سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ ماہرین اور معذرت خواہان خود بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ سوویت یونین کے انہدام سے خطرہ وقتی طور پر ٹلا ضرور تھا مگر سرمایہ دارانہ تضادات آج پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے سر اٹھا رہے ہیں اور سوشلزم کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا ابھی تک کوئی دوسرا طریقہ یا متبادل منظرِ عام پر نہیں لایا جا سکا۔ رواں برس 7، 8 فروری کو امریکی کانگریس میں سوشلزم کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی۔ آخر اس قرارداد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر سوشلزم واقعی ناکام ہو چکا ہے تو اس کو اتنے اہم پلیٹ فارم پر زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر مارکسزم مر چکا ہے تو پھر اس کا اتنا خوف کیوں؟ ظاہر ہے کہ سامراجی ادارے اور ریاستیں تاریخی افق پر پھر سوشلزم کی چاپ سن رہے ہیں اور اس کی پیش رفت سے ان کے ایوان لرزنا شروع ہو چکے ہیں۔
آئیے اب اس اعتراض کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ اول تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ’ناکامی‘ لفظ کے اصل مفہوم کے مطابق سوویت یونین کے تجربے کو ناکام کہا ہی نہیں جا سکتا۔ اس تخمینے کے لیے آئیے ایک دلچسپ پیمانہ تخلیق کرتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1917ء سے لے کر 1989ء تک کے 72 سالوں کے دورانیے میں ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت سوویت یونین نے جو اور جتنی حاصلات جیتیں، اگر روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا نہ ہوا ہوتا تو کیا اسی عرصے میں روس اس سے زیادہ حاصلات جیت پاتا؟ یہ درست ہے کہ تاریخی سفر میں اس طرح کا موازنہ عجیب لگتا ہے مگر اس کا ایک بہت آسان حل یہ ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ اسی دورانیے میں سرمایہ دارانہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کی جو حاصلات رہیں کیا مقداری اور معیاری حوالے سے وہ سوویت یونین سے زیادہ تھیں یا کم؟ اس ضمن میں ایک تو ہم اسی مثال کو دوہرائیں گے جو ہم اس مضمون میں پہلے بھی کہیں دے چکے ہیں یعنی انقلاب کے بعد کے 50 سالوں میں سوویت یونین کے صنعتی آؤٹ پٹ میں 52 گنا اضافہ ہوا جبکہ اسی دورنیے میں امریکہ کے صنعتی آؤٹ پٹ میں 6گنا اور برطانیہ میں 2 گنا اضافہ ہوا۔ سوویت یونین میں محنت کی پیداواریت میں 1310 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں امریکہ اور برطانیہ میں یہ اضافہ بالترتیب 332 فیصد اور 73 فیصد رہا۔ نیز 1917ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اوسط عمر (Life Expectancy)مردوں میں 48.4 سال تھی اور عورتوں میں 54 سال تھی، جو 1989ء میں مردوں اور عورتوں میں بالترتیب 71.7 اور 78.5 سال ہو گئی۔ برطانیہ میں 1920ء میں اوسط عمر 48.8 سال سے 1990ء میں بڑھ کر 75.14 سال ہو گئی۔ جبکہ روس میں 1920ء میں اوسط عمر صرف 25.8 فیصد تھی جو 1990ء میں بڑھ کر 69.13 سال ہو گئی۔ اس میدان میں بھی ترقی کی شرح سوویت یونین میں امریکہ اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہی۔خواندگی کی شرح میں اضافے کے موازنے میں بھی سوویت یونین امریکہ اور دیگر سرمایہ دارانہ ممالک سے کہیں آگے رہا۔ سوویت یونین میں آبادی میں 15 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکنیشنز کی تعداد میں 55 گنا اضافہ ہوا۔ ہر ایک لاکھ افراد کے لیے سوویت یونین میں انہدام کے وقت ڈاکٹروں کی تعداد 205 تھی جبکہ اس وقت اٹلی اور آسٹریا میں یہ تعداد 170، امریکہ میں 150، مغربی جرمنی میں 144، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں 110 اور سویڈن میں ایک لاکھ افراد کے لیے 101 ڈاکٹر تھے۔ سیٹیلائٹ اور نیوکلیر ٹیکنالوجی اور ثقافتی میدان میں بھی سوویت یونین کسی سے کم نہیں تھا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے دور میں روس نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے سرمایہ دارانہ نظام میں یا زارِ روس کے تحت اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان بنیادوں پر روس میں منصوبہ بند معیشت کے تجربے کو ناکامی قرار دینا سراسر بد دیانتی اور تعصب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام حاصلات کے باوجود سابقہ سوویت یونین میں ریاست کی جو شکل تھی وہ سوشلزم ہر گز نہیں تھا۔صرف منصوبہ بند معیشت کو سوشلزم نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ ہم اسی مضمون میں پہلے وضاحت کر چکے کہ سوشلزم اپنی سرشت میں جمہوری ہوتا ہے اور فیصلہ سازی میں مزدور طبقے کی شعوری مداخلت سوشلزم کا لازمی عنصر ہے۔ مزید برآں 1917ء کے پسماندہ روس میں سوشلسٹ انقلاب تو برپا ہو چکا تھا مگر سوشلزم کی تعمیر کے لیے روسی پرولتاریہ کو مغربی یورپ کے جدید ممالک کے پرولتاریہ کی معاشی، تکنیکی اور سیاسی کمک درکار تھی۔ لینن اور ٹراٹسکی نے کبھی بھی کسی ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کا تصور پیش نہیں کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ عالمی تقسیمِ محنت اور سامراجیت کے مظہر کے باعث ایسا سوچنا بھی محال ہے۔ جب سرمایہ داری قومی حدود سے تجاوز کر چکی ہے تو اس سے بھی جدید نظام یعنی سوشلزم کو ایک ملک تک محدود کر کے زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے پسماندہ روس میں جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ جانتے تھے کہ اس کی تکمیل بین الاقوامی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انقلاب کے بعد قحط، جنگ اور خانہ جنگی کے انتہائی دشوار حالات کے باوجود دنیا بھر کے انقلابیوں کو سوویت یونین میں جمع کیا اور تیسری انٹرنیشل تنظیم یعنی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور لینن کی زندگی میں اس انٹرنیشنل کی سالانہ کانگریس پانچ سال تک باقاعدگی سے منعقد ہوتی رہی۔لینن اور ٹراٹسکی جرمنی اور دیگر ممالک میں بھی انقلاب کا تناظر بنا کر سوویت یونین کے انقلاب کو کسی بھی صورت میں اس وقت تک قائم رکھنا چاہتے تھے جب تک انقلاب عالمی سطح پر تیزی سے پھیل نہیں جاتا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انقلاب کے بعد روس کا نام تبدیل کر کے یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک رکھا، یعنی یہ صرف روس کے مزدوروں کا انقلاب نہیں تھا بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کا انقلاب تھا۔ اور جس جس ملک میں بھی انقلاب آگے بڑھتا وہ اس یو ایس ایس آر کا حصہ بنتے چلے جاتے اور پھر عالمی انقلاب کے بعد مزدور ریاست کا وجود بھی ناپید ہو جاتا۔ اسے مارکس نے کمیونزم کا دوسرا یا اونچا مرحلہ قرار دیا تھا۔
لینن کا تناظر تو ٹھیک ثابت ہوا مگر بدقسمتی سے قیادت کے فقدان یا غلط پالیسیوں کے باعث جرمنی، اٹلی اور دیگر ممالک کے انقلابات کامیاب نہیں ہو سکے اور روس کا انقلاب اپنی پسماندگی کی زنجیروں میں مقید ہو کر تنہائی کا شکار ہو گیا۔ انہی مخصوص معروضی حالات نے انقلاب کی پسپائی اور افسر شاہی کے ابھار کی راہ ہموار کی۔ سوویت یونین میں یہ افسر شاہانہ ردِ انقلاب لینن کی وفات سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا، لینن نے اپنے تئیں اس کے خلاف مزاحمت بھی کی مگر اپنی بیماری اور معذوری کے باعث وہ اس میں فعال کردار ادا نہیں کر سکا۔ اپنے مخصوص سیاسی و ثقافتی پسِ منظر کے باعث جوزف سٹالن نے اس افسر شاہانہ ردِ انقلاب کی قیادت کی، اسی لیے سوویت افسر شاہی کے سیاسی ماڈل کو سٹالنزم کا نام دیا جاتا ہے۔ لینن کی موت کے بعد لیون ٹراٹسکی اور اس کے کامریڈز نے اس افسر شاہانہ ردِ انقلاب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر تاریخی اور معروضی محرکات ان کے حق میں نہیں تھے اور وہ اس ردِ انقلاب کا راستہ نہیں روک پائے۔ یہ منصوبہ بند معیشت اور مطلق العنانیت کا تضاد ہی تھا جس کے باعث عالمی سوشلسٹ انقلاب کی طرف پیش رفت کا یہ سنہرا موقع ضائع ہو گیا۔ عام طلبہ اور محنت کش تو درکنار بائیں بازو کے کارکنان کی اکثریت کے لیے بھی اس تضاد کو بھانپنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سٹالن کے زیرِحکومت منصوبہ بند معیشت کے باعث ترقی اتنی برق رفتار تھی کہ دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیاں اور انکی قیادتیں اس نظام کی درستگی پر سوال اٹھانے کا تصور بھی نہ کر سکیں اور یہ جسارت کرنے والے لیون ٹراٹسکی اور اور اس کے ساتھیوں کو غدار قرار دے کر ان کی تعلیمات کے مطالعے کو ہی مزدور تحریک میں شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔ سٹالن نے لینن کی وفات کے فوری بعد ہی ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کا بیہودہ غیر مارکسی اور غیر لیننی تصور پیش کر دیا تھا اور بعد ازاں چرچل اور روز ویلٹ کے ساتھ معاہدے کے بعد 1943ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کا خاتمہ کر کے لینن ازم سے اپنا آخری برائے نام رشتہ بھی عملاً ختم کر ڈالا اور یوں عالمی مزدور تحریک کی سیاسی بے راہروی ناگزیر حقیقت بن گئی جسے ٹراٹسکی نے ’قیادت کے بحران‘ کا نام دیا۔
افسر شاہی کے شکنجے میں سوویت یونین میں سوویتوں کا تصور ہی عملاً ختم ہو چکا تھا اور محنت کش فیصلہ سازی میں برائے نام ہی شامل ہوتے تھے۔ ایک مطلق العنان افسر شاہی سوویت یونین پر قابض تھی جس کا بہت بڑا حجم ریاستی پیداواریت کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھاتا رہا۔ اسی افسر شاہی کے طفیلیے کردار کے باعث منصوبہ بندی میں تعطل اور نقائص پیدا ہوئے اور معاشی اور سیاسی بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا جو بالآخر سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے 72 سالوں میں کوئی بھی سرمایہ دارانہ معیشت کا ماہر یا سیاسی تجزیہ نگار سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق نہیں کر سکا۔ یہ لینن، ٹراٹسکی، ٹیڈ گرانٹ جیسے مارکسی اساتذہ ہی تھے جنہوں نے اس عرصے میں بار بار سوویت افسر شاہی کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی کی اور وضاحت کی کہ اگر محنت کش طبقے نے افسر شاہی کے خلاف سیاسی انقلاب برپا نہ کیا تو بالآ خر افسر شاہی اپنی مراعات کی نسل در نسل منتقلی کے لیے نجی ملکیت کی راہ ہموار کرے گی اور سرمایہ دارانہ نظام میں واپسی ناگزیر ہو جائے گی۔بالآخر 1989ء میں یہ حادثہ بھی ہو گزرا اور سوویت یونین زمیں بوس ہو گیا۔ سوشلزم کے ناقدین جتنا بھی شور شرابہ کر لیں سوویت یونین میں منہدم ہونے والا سوشلزم نہیں تھا سٹالنزم ہی تھا۔ لیکن اگر اس تجربے کو واقعی ناکام مان بھی لیا جائے تب بھی یہ کوئی تاریخی عجوبہ ہر گز نہیں ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام بھی جب تاریخ کے افق پر نمودار ہوا تھا تو ہالینڈ اور برطانیہ اور حتیٰ کہ فرانس میں بھی پہلے ہی تجربے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو گئے تھے۔ انقلابِ فرانس بلاشبہ انقلابِ روس کے بعد انسانی تاریخ کا اہم ترین واقعہ تھا مگر وہاں بھی چند سال بعد ہی نپولین کی شکل میں آمریت کا آنا قومی جمہوری انقلاب کی وقتی پسپائی ضرور تھی مگر سرمایہ دارانہ انقلاب بہرحال آگے بڑھتا گیا اور بہرحال پوری دنیا میں فتحمند ہو کر رہا۔ سائنس میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی نئی ایجاد پہلی ہی کوشش میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی، بار بار کے تجربوں کے بعد ہی ایک نئی سائنسی ایجاد مسلمہ شناخت اور کامیابی کی سند حاصل کر پاتی ہے۔ ہم بھی سائنس کے طالبِ علم ہیں اور ہم سوویت یونین کے انہدام کو فیصلہ کن ناکامی نہیں بلکہ وقتی پسپائی سمجھتے ہیں اور ماضی کے اس سنہرے باب سے بہت سے اسباق اخذ کرتے ہوئے اس انقلابی سفر کوحتمی منزل تک ہر حال میں اور ہر قیمت پر جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔