|تحریر: لی سنگھ گل اور الیکسنڈر سوبیسکی، ترجمہ: ولید خان|
6 جون، 2017ء
سوموار کو برسات بھری شام کو ٹائن دریاکے کیچڑ بھرے کناروں پر 10,000 لوگ جیرمی کوربن کو سننے کیلئے اکٹھے ہوئے۔ عام انتخابات سے محض تین دن پہلے عوامی موڈ رجائیت اور خوشی سے بھرپور تھا اور تمام لوگ اس احساس سے سرشار تھے کہ ایک تاریخی مرحلہ ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔
سوشلسٹ اپیل اور نیو کاسل مارکسٹ سوسائٹی کے کامریڈ شام پانچ بجے ہی پہنچ گئے تاکہ عوامی اجتماع کے ساتھ ہی موجود ٹیلے پر کسی اچھی جگہ کیمپ لگایا جا سکے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت چند سو لوگ موجود تھے۔ کچھ ہی دیر میں یہ تعداد بڑھ کر 1000 ہو گئی۔ لوگوں میں موجود جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ ملینیم برج کے ذریعے لوگ تواتر کے ساتھ جلسہ گاہ پر پہنچ رہے تھے، یہاں تک کہ لوگ پہنچنے کیلئے ٹیلے پر سے چڑھ کر آ رہے تھے۔ ایک گھنٹے کے اندر ہجوم 4000 تک پہنچ گیا۔ جب تک ریلی کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت تک ہجوم 10,000 تک پہنچ چکا تھا۔ ریلی میں شرکا کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پانچ ہزار لوگ پنڈال میں داخل ہی نہیں ہو سکے اور ساتھ موجود ایک گاڑیوں کی پارکنگ میں سپیکروں پر تقریریں سنتے رہے۔ مزید 4000 لوگ انٹرنیٹ پر سارا جلسہ براہ راست دیکھ رہے تھے۔
سامعین میں کم از کم بھی دو تہائی اکثریت نوجوانوں کی تھی جن کی عمر 30 سے کم تھی۔ ساتھ ہی بوڑھے، سرکاری اداروں کے ملازم، بے روزگار، طلبہ اور معذور افرادبھی موجود تھے۔ یہ تحریک جس کا جیرمی کوربن لیڈر بن چکا ہے اس کی عکاسی جیرمی کی تقریر میں واضح موجود تھی جب اس نے کہا کہ، ’’ہم سیاہ فام ہیں، ہم سفید فام ہیں، ہم ہم جنس پرست ہیں، ہم نوجوان ہیں اور ہم بوڑھے ہیں۔‘‘
’’ہماری پالیسیاں بہتر ہیں‘‘
انگلینڈ کا شمال مشرقی علاقہ اسی اور نوے کی دہائیوں میں صنعتی بندشوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یہی وہ علاقہ بھی ہے جہاں بلئیرازم کی دائیں بازو غداری نے لیبر پارٹی کے ووٹ بینک کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ مناسب تھا کہ کوربن کے گرد ابھرنے والی تحریک کو اتنی ہی پرجوش پذیرائی ملی جتنی کہ باقی سارے ملک میں۔ سٹیج پر جیرمی کے ساتھ کچھ مقامی لیبر امیدوار بھی موجود تھے جن میں شمال مغربی ڈرہم کی امیدوار لارا پڈکاک، گیٹس ہیڈ کے موجودہ ممبر پارلیمنٹ ایان میرنس، بلیڈن کے ممبر پارلیمنٹ ڈیو اینڈرسن، نارتھ امبریا کی پولیس اور جرائم کمشنر ویرا بیرڈ، وانس بیک کے موجودہ ممبر پارلیمنٹ ایان لاوری اور نیوکاسل سینٹرل کے چی اون وراہ موجود تھے اور ان سب نے بھی تقریریں کیں۔
لیبر پارٹی کے منشور میں اعلان کردہ پالیسیاں توجہ کا مرکز تھیں جن کے مختلف نکات پر ہر مقرر نے بات کی۔ این میرنس نے پچھلے انتخابات میں ووٹ کمپین کے مقابلے میں آج گلیوں میں موجود جذبات کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ، ’’2010ء اور 2015ء میں ہم لوگوں کو یہ کہا کرتے تھے کہ لیبر پارٹی کیلئے ووٹ دو کیونکہ ہم ٹوری پارٹی کے مقابلے میں اتنے بھی برے نہیں ہیں۔ لیکن آج اس منشور کی وجہ سے ہم باہر نکل کر لوگوں سے یہ بحث کر سکتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دو کیوں کہ ہماری پالیسیاں بہتر ہیں۔‘‘ وہ دن چلے گئے جب لوگ غصے اور مایوسی سے ووٹ دیتے تھے۔ موجودہ منشور اور جیرمی کوربن کی لیڈرشپ نے عوام کو حقیقی ہمت و حوصلہ فراہم کیا ہے جن کو تاریخی طور پر نظر انداز کیا گیا اور جو ویسٹ منسٹر کی سیاست سے بیگانہ ہو چکے تھے۔ چی اون وراہ نے 80ء کی دہائی میں ایک نوجوان عورت جو انجینئرنگ پڑھ رہی تھی، کے حوالے سے اپنے تجربات پر بات کی۔ اس نے اپنی تقریر کا اختتام خواتین سے اپیل کے ساتھ کیا کہ وہ لیبر پارٹی کو ووٹ دیں اور جیرمی کوربن کی حمایت کریں۔ یہ صرف کوئی رسمی بات نہیں تھی بلکہ خواتین محنت کشوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے طبقاتی بنیادوں پر اپیل تھی۔ اس نے خواتین کو کام کی جگہوں اور گھروں میں درپیش عدم مساوات کی بات کی اور ان حقائق کو ٹوری پارٹی کی جبری کفایت شعاری کی پالیسی سے جوڑا۔ یہ بھی کہا گیا کہ مارگریٹ تھیچر اور تھیریسا مے نے محنت کش خواتین کیلئے کچھ نہیں کیا اور یہ صرف محنت کش طبقہ اور لیبر پارٹی ہی ہیں جو حقیقی مساوات کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔
تمام تقریروں میں پولیس فورس کی تعداد میں اضافے کا نکتہ صرف وہ حصہ تھا جس میں عوام کی عدم دلچسپی واضح تھی۔ نارتھ امبریا کی پولیس اور جرائم کمشنر، ویرا بیرڈ لیبر پارٹی کی جانب سے پولیس اور دفاعی بجٹ میں اضافے کے حوالے سے پالیسیوں پر چند منٹ بولتی رہی لیکن اس میں کوئی ٹھوس پر امید بات نہیں کی۔ اس کی تمام تقریر کا سرد مہر تالیوں سے استقبال کیا گیا۔ اس بات پر کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ دہشت گردی کیوں دن بدن پروان چڑھ رہی ہے اور اس کا کیسے مقابلہ کیا جائے گا۔
کچھ کیلئے نہیں، سب کیلئے
شام کو 7:30 بجے جب جیرمی کوربن تقریر کیلئے سٹیج پر آیا تو اسے ایک ہیرو کا استقبال دیا گیا۔ اس کی روح پرور تقریر شروع ہونے کے ساتھ ہی فضا ’’کوربن‘‘ اور ’’جیزا‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔
منشور میں موجود پالیسیوں کا سرسری جائزہ لینے کے بعد لیبر پارٹی اور ٹوری پارٹی کے پروگراموں کا موازنہ کیا گیا۔ کوربن نے مذاق میں ٹوری پارٹی کے ’’پیسوں کے جادوئی درخت‘‘ کا ذکر کیا کہ وہ موجود ہے، جس کی وجہ سے سماج کی اوپری پرتوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور مالی امداد دی جاتی ہے جبکہ محنت کشوں کی کثیر آبادی کا بجٹ میں حصہ کم سے کم کیا جا رہا ہے۔ ایسا وقت آ پہنچا ہے کہ عوامی سہولیات کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروسز، ہمارے سکول، رہائشی سہولیات یہ تمام بحران کا شکار ہیں اور ٹوری حکومت مزید تباہی و بربادی پھیلانے پر مصر ہے۔
کوربن نے کہا کہ جمعرات کے انتخابات کے جو بھی نتائج ہوں، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اس تحریک کو آگے لے کر چلیں۔
دو انتخابی مہموں کی کہانی
ساری انتخابی مہم میں تھیریسا مے نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ عوام کی نظروں میں نہ آئے: بحث مباحثے سے کترانا، انٹرویو نہ دینا اور روایتی انتخابی مہم سے کنارہ کشی۔ آخری بات پوری طرح واضح اس وقت ہوئی جب مے نے شمال مشرق کا ایک مہینہ پہلے دورہ کیا۔ اسے نارتھ امبرلینڈ کے ایک دور افتادہ ائرپورٹ لے جایا گیا جہاں وہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ملی۔ اپنے مختصر دورے کے دوران اس نے لِنسکل سینٹر کا بھی دورہ کیا، ایک ایسا کمیونٹی سینٹر جسے ٹوری پارٹی نے تقریباً بند ہی کر دیا تھا۔ وہاں پر اس نے ایک بار پھر ایک پریس کانفرنس رکھ کر پروگرام کو غیر عوامی کر دیا اور پھر بعد میں وہ پچھلے دروازے سے چپکے سے نکل گئی کیونکہ کچھ لوگ اس کے خلاف احتجاج کیلئے اکٹھے ہو گئے تھے۔
دوسری طرف کوربن اور لیبر پارٹی کیلئے سوموار کی ریلی میں سماج کی تمام جوان، متحرک اور صحت مند پرتیں موجود تھیں۔ بہت سارے ایسے لوگ بھی موجود تھے جو پہلے کبھی سیاست میں متحرک نہیں رہے اور اس ریلی کے ان پر گہرے اثرات پڑے۔ لیکسی، جو کہ شعبہ صحت میں ایک نرس ہے اس نے بتایا کہ، ’’مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں ایک انقلاب کا حصہ تھی! مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ (جیرمی کوربن) ہم چھوٹے لوگوں کے بارے میں واقعی متفکر ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی نوکریوں کو نجی شعبے کے حوالے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت اس نے مجھے شکتی دی اور اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ واقعی میرے ووٹ کی کوئی اہمیت ہے!‘‘ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ باقی محنت کشوں کیلئے اس کا کیا پیغام ہے تو اس نے ہمیں بتایا کہ، ’’اگر آپ صحت کے شعبے یا کسی بھی عوامی ادارے میں کام کرتے ہیں تو امید نہ ہاریں۔ اگر آپ ابھی بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ کسے ووٹ دیا جائے تو پھر لیبر کو ووٹ دیں۔ کوربن ایماندار ہے اور وہ وہی کہتا ہے جیسا کہ اس کے منشور میں ہے۔ وہ ہماری نوکریوں اور شعبہ صحت کو بچا سکتا ہے۔ کوربن احتجاج کا ووٹ ہے۔ تبدیلی کیلئے ایک ایسا احتجاج جس کی ہمیں شدت سے ضرورت ہے!‘‘
نیو کاسل کالج کی ایک طالبہ لورین نے ہمیں بتایا کہ، ’’میں اس ریلی میں اس لئے آئی تاکہ میں اس تحریک کیلئے اپنی حمایت کا اظہار کر سکوں جس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ یہی وہ واحد طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ہم ایک زیادہ مساوی سماج کی تعمیر کر سکتے ہیں۔‘‘ ریلی کے بعد اس نے کہا۔ ’’میرے اندر امید اور فخر سے بھر گیا ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ میں دوسروں اور اپنی کمیونٹی کے ساتھ اتحاد میں ہوں اور ایک طویل عرصے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ شمال مشرق اور محنت کشوں کی آوازوں کی سیاست میں نمائندگی اور بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ میں سب کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ ووٹ ڈالیں اور تمام چیزوں کا انسانی حقوق کے نکتہ نظر سے جائزہ لیں۔ ہاں، معیشت کی اہمیت ہے لیکن انسانی زندگی کے معیار کی کہیں زیادہ اہمیت ہے۔ ہم بہتر حالات زندگی کے مستحق ہیں، یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں سنا جائے۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ایسی اجرت دی جائے جس پر ہم واقعی زندہ رہ سکیں۔ براہ مہربانی کوربن اور اپنے مقامی لیبر ممبر پارلیمنٹ کی حمایت کریں تاکہ ہم یہ تبدیلی لے کر آئیں جس کی عوام کی اکثریت کو شدت سے ضرورت ہے۔‘‘
نارتھ امبر لینڈ سے شعبہ صحت سے متعلق ورکر راب نے سوشلسٹ اپیل کے کامریڈز کو بتایا:’’میں یہاں اپنی حمایت کا اعلان کرنے آیا ہوں کیونکہ مجھے یہ پہلا حقیقی موقعہ ملا ہے کہ میں ایک ایسے پروگرام میں شرکت کروں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کوربن واقعی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی بہت ساری پالیسیوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے درست لوگوں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے۔ سابق کان کن، شعبہ صحت کے ورکرز، اساتذہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی نئی نسل کے ساتھ حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ ہم یہ تبدیلیاں محسوس نہیں کریں گے بلکہ یہ ہمارے بچے اور ان کے بچے ہوں گے جن پر ہمارے فیصلوں کے سب سے زیادہ اثرات پڑیں گے۔ تمام سرکاری شعبے کے محنت کشوں کو متحد ہونا چاہیے اور سرکاری شعبے کی نوکریوں کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے۔‘‘
یہ تمام باتیں اس عوامی موڈ کا اظہار ہیں جو ریلی میں جھلک رہا تھا۔
’’کوربن ہی انقلاب ہے!‘‘
ساری شام ایک جشن کا سماع بندھا رہا۔ موسیقی بج رہی تھی اور لوگ اکٹھے ہو رہے تھے۔ بارش میں لوگ پروگرام کے شروع ہونے کے انتظار میں ناچ رہے تھے۔ ہر کوئی پر امید تھا۔ایک اہم موڑ آن پہنچا ہے اور یہ احساس کہ ہم یہ انتخابات واقعی جیت سکتے ہیں، محنت کشوں کی زیادہ سے زیادہ پرتوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ ریلی میں سب سے زیادہ دلچسپ پلے کار ڈ ’’کوربن ہی انقلاب ہے!‘‘ تھا۔ زیادہ تر لوگوں کیلئے ایسا ہی ہے۔ جیرمی کوربن اور اس کے گرد بنی تحریک برطانوی سیاست میں ایک دیو ہیکل تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے اور اب وقت کا دھارا واپس موڑنا تقریباً ناممکن ہے۔