جواب۔ کسی مارکسی رجحان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ مزدور تحریک کے وسیع تجربہ کو عمومی اصولوں کی شکل دیتے ہوئے محنت کش طبقے کی اجتماعی یاداشت کاکام کرے۔تحریک کے اندر ایک علیحدہ رجحان کے طورپر ہمارے وجود کا کوئی اور جواز نہیں ہو سکتا۔اگر محنت کش طبقہ کو سماج تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو ایک ایسی پارٹی کی تعمیر کا وقت طلب کام انتہائی ضروری ہے۔ انقلابی مواقع غیر معینہ عرصے کیلئے نہیں ہوتے۔اگر محنت کش طبقہ سماج کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو ناگزیر طورپر حکمران طبقہ اپنے نظام کے دفاع میں اسے کچل ڈالتاہے۔ بدقسمتی سے محنت کش طبقے کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کی کوششوں کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے مثال کے طورپر چلی میں 1972-73 ء کے دوران ایک انقلابی پارٹی راتوں رات وجود میں نہیں آ سکتی تھی ۔ یہی کیفیت ہمیں 1968-69 ء میں پاکستان میں ملتی ہے۔ اسے شعوری طورپر تعمیر کرنا ضروری ہے اور اس کی تعمیر بین الاقوامی سطح پر مزدور تحریک کی جدوجہد اور پہلے سے موجودتنظیموں‘پارٹیوں اور یونینوں کے اندر کی جانی چاہیے۔ انقلابی پارٹی اور قیادت کی موجودگی طبقاتی جدوجہد کے نتیجے پر اسی طرح فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہو تی ہے جس طرح قوموں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں فوج اور جنرل سٹاف کا معیارفیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے ۔جس طرح جنگ کے آغاز پر جنرل سٹاف کو فوری طورپر معرض وجود میں نہیں لایا جا سکتااسی طرح انقلابی پارٹی کو بھی عین موقع پر تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسے سالوں اور دہائیوں تک منظم طریقہ سے تعمیر کرنا پڑتا ہے۔ ساری تاریخ اور بالخصوص بیسویں صدی کی تاریخ ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے۔محنت کش طبقے کی شہید اور عظیم انقلابی روزالکسمبرگ ہمیشہ اس بات پر زور دیتی تھی کہ عوام کی انقلابی پہل قدمی انقلاب کی قوت متحرکہ ہے۔اور اس کی بات بلکہ درست ہے۔انقلاب کے دوران عوام بہت تیزی سے سیکھتے ہیں۔لیکن انقلابی کیفیت کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ سماج کو ایک مستقل ابھار کی حالت میں نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی محنت کش طبقہ کو مستقل طورپر شدید سرگرمی کی کیفیت میں رکھا جا سکتا ہے۔نہ تو تجربات کیلئے وقت ہوتا ہے اورنہ ہی محنت کشوں کے پاس ٹامک ٹوئیاں مار کر سیکھنے کا وقت ہوتا ہے۔ جب زندگی موت کا مسئلہ پیش ہوتو غلطیوں کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔لہذا ضروری ہے کہ عوام کی ’’خودرو‘‘ تحریک کوتنظیم‘پروگرام‘پیش منظر‘حکمت عملی اور طریقہ کار یعنی ایک انقلابی پارٹی کے ساتھ جوڑا جائے جس کی باگ دوڑ تجربہ کار کیڈرز کے ہاتھ میں ہو۔ سرمایہ داری نظام خود بخود تباہ نہیں ہوگا اور اس کا ہر بحران ہمارے لئے دشواریاں لے کر آئے گا۔ صرف بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کی شعوری جدوجہد اور انقلابی قیادت کی تعمیر ہی سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک سکتی ہے۔اس لئے بلاشبہ کسی بغاوت کی نہیں بلکہ محنت کش طبقہ یعنی سماج کی اکثریت کی شعوری تحریک کی ضرورت ہے۔ہم سب مختلف ہیں اور یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ سب لوگ راتوں رات خود کارطریقہ سے ایک ہی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے اور صبح اٹھتے ہی مل کر انقلاب کر دیں گے۔ ہم سب مختلف اوقات پر مختلف واقعات سے سیکھتے ہیں۔ایک انقلابی رجحان کا وجود اس لئے ضروری ہے کہ ان تمام لوگوں کو اکٹھا کرکے سماج کوتبدیل کرنے کا فریضہ سرانجام دیا جا سکے۔