جواب۔ اس وقت کرہ ارض پر چھ ارب انسان موجودہیں جبکہ دس ارب انسانوں کیلئے خوراک پیدا کی جا سکتی ہے۔تاہم بھوک‘فاقہ کشی اور غربت وافلاس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔80 کروڑ افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ دو ارب چالیس کروڑ افراد اغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔مائیکرو سافٹ کمپنی کے تین اعلیٰ ترین عہد یداروں کے پاس اس قدردولت موجود ہے جو امریکی حکومت کی طرف سے غربت کے خلاف جاری پروگراموں کیلئے مختص کردہ رقم سے زیادہ ہے۔ مختلف معیشتوں کے درمیان اشیاء کا تبادلہ منصفانہ بنیادوں پر نہیں ہوتا۔ مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیاں جوبے پناہ طاقت کی مالک ہیں زیادہ تر دولت پر قابض ہیں(کرہ ارض کی مجموعی داخلی پیداوار کا چالیس فیصد اور تجارت کا ستر فیصد ) اور باقی دنیا پر اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے من مانی شرائط مسلط کرتی ہیں۔عالمی معیشت کی تقسیم سے سبھی ممالک کو برابر کا فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اجارہ داریوں کے ہاتھ اپنا خام مال(تیل‘معدنیات‘ زرعی اجناس)اور محنت انتہائی سستے داموں فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ اس عمل سے عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہے۔ غریب ممالک ایسی پیداوری اشیاء کے تبادلے پر مجبور ہوتے ہیں جن کی تیاری میں زیادہ محنت صرف ہوئی ہوتی ہے(تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے) جبکہ ان کے عوض وہ ترقی یافتہ ممالک اور سامراجی اجارہ داریوں سے ایسی اشیاء لیتے ہیں جو مہنگی ہوتی ہیں جبکہ ان کی تیاری بہت آسان ہوتی ہے(ذرائع پیداوار کی معیاری اور مقداری حوالے سے اعلیٰ سطحی کے باعث)۔ اس عمل میں کون کھوتا ہے اور کون پاتا ہے یہ بات بالکل واضح ہے۔علاوہ ازیں عالمی معیشت مغربی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرنگیں ہے اور وہ اپنی مرضی کی قیمتیں‘تجارتی قوانین اور معاشی پالیسیاں باقی دنیا پر مسلط کر سکتی ہیں۔ مثال کے طورپر 1960 ء میں ایک امریکی ٹریکٹر خریدنے کیلئے تنزانیہ کو کافی کے دو سو تھیلے دینا پڑتے تھے۔ تیس سال بعد ایک امریکی ٹریکٹر کی خریداری کیلئے تنزانیہ کو چھ سو سے زائد کافی کے تھیلے دینا پڑتے ہیں۔