جواب۔ باقی تمام تاریخ کی طرح انقلاب کی تاریخ کو سب سے پہلے تو یہ بتانا چاہیے کہ کیا ہو ااور کیسے ہوا۔تاہم یہ بات انتہائی ناکافی ہے۔ بیان سے ہی یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ جو کچھ ہوا وہ اسی طرح کیوں ہوا کسی اورطرح کیوں نہیں ہوا۔واقعات کو نہ تو مہم جوئی کا ایک سلسلہ خیال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں پہلے سے طے شدہ انجام یا سبق کی لڑی میں پروئے ہوئے دانے سمجھا جا سکتا ہے۔ انہیں لازمی طورپر اپنے قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔
عوام کی تاریخی واقعات میں براہ راست مداخلت انقلاب کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے بارے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔عام ادوار میں ریاست‘چاہے وہ مطلق العنان ہو یا جمہوری ‘ خود کو قوم سے بلند کر لیتی ہے اور تاریخ ایسے ماہرین بناتے ہیں جن کا یہ کام ہے۔مثلا بادشاہ‘ وزراء ‘ بیوروکریٹ اور ممبران پارلیمنٹ۔ لیکن ایسے فیصلہ کن لمحات میں جب پرانا نظام عوام کیلئے قابل برداشت نہیں رہتا تو وہ تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے ان حضرات کو سیاسی اکھاڑے سے خارج کر دیتے ہیں۔اپنے روایتی نمائندوں کو ایک طرف ہٹا دیتے ہیں اور اپنی براہ راست مداخلت کے ذریعے ایک نئے نظام کی راہ ہموار کرتے ہیں۔اس کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ ہم اخلاقیات پرستوں پر چھوڑتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم حقائق کو اسی طرح لیں گے جس طرح ارتقاء کا معروضی راستہ ہمیں مہیا کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک انقلاب کی تاریخ سب سے بڑھ کر عوام کے اپنے مقدر کو خود اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے تاریخ کے میدان میں پرزور مداخلت کی تاریخ ہے۔