جواب۔ نظریہ مسلسل انقلاب کی عملی بنیادیں تین کلیدی نکات پر مبنی ہیں۔
پسماندگی اور جدیدیت کے ادغام پر مبنی معاشروں کے حکمران اپنی تاریخی اوراقتصادی کمزوری کی وجہ سے ان معاشروں کو ترقی یافتہ اور جدید بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ تاریخی طورپر سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب کے جو فرائض بورژوا طبقے نے مکمل کرنے تھے ان میں جدید قوم اور قومی ریاست کی تشکیل‘ جدید صنعتی معاشرے کے قیام کے لئے درکار بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی تعمیر‘ جاگیر داری کا خاتمہ اور زرعی انقلاب‘ پارلیمانی جمہوریت کی استواری اور مذہب کو ریاست سے الگ کیے جانا تھے۔ پاکستان اور دوسرے نوآبادیاتی ممالک کے حکمران ’آزادی‘ کے بعد ان میں سے کسی فریضے کی تکمیل نہیں کر سکے۔ اور بڑھتے ہوئے سامراجی تسلط میں اس نظام میں رہتے ہوئے کبھی بھی نہیں کر سکتے ۔ اس لئے ان فرائض کو تکمیل کیلئے درکار وسائل( بھاری صنعت‘ بینک‘ سرمایہ وغیرہ) کو ریاستی تحویل میں لینا ضروری ہو جاتا ہے ۔ اس طرح قومی جمہوری انقلاب کے فرائض کو مکمل کرنے کیلئے سوشلسٹ اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ اس لئے اس انقلاب کا کردار مسلسل یا پیہم ہو جاتا ہے۔اس حالت میں جس طبقے نے انقلاب کی قیادت کرنی ہے وہ تاریخی اعتبارسے انسانی سماج کا جدید ترین طبقہ یعنی صنعتی مزدور یا پرولتاریہ ہے اپنی قیادت میں وہ غریب کسانوں اور سماج کے دوسرے پچھڑے ہوئے طبقات اور پرتوں کو لے کر ہی سرمایہ داری کا سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ کرے گااس انقلابی سرکشی میں مسلح ایک سوشلسٹ انقلاب کے برپا ہونے سے کسی معاشرے میں سوشلزم نہیں آجاتا۔ سوشلزم کا حتمی مقصد ایک طبقات سے پاک معاشرہ کا قیام ہے ایسا سماج جہاں تمام اشیائے صرف کی بہتات کے ساتھ مساوی اور اجتماعی فراہمی ہو ایک ملک اور خصوصاً ایک پسماندہ ملک میں موجود ثقافتی‘ صنعتی و فنیمعیار اس قابل نہیں ہوتا کہ ان سے سوشلزم کے بنیادی تقاضوں کا حصول ممکن ہو اس لئے اگر سوشلسٹ انقلاب ایک ملک میں برپا ہوتا ہے تو سوشلزم کے حصول کیلئے پہلے تمام خطے میں اور پھر عالمی طورپر سوشلسٹ انقلابات کے عمل کا پھیل جانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔