جواب۔ ’’سب کو پتہ ہے کہ کسی بھی سماج میں کچھ لوگوں کے مقاصد اور کاوشیں دوسرے لوگوں کے مقاصد اور کاوشوں سے متصادم ہوتے ہیں اور یہ کہ سماجی زندگی تضادات سے بھری پڑی ہے اور یہ کہ تاریخ سماجوں کے درمیان‘ اور سماجوں کے اندر ایک جدوجہد کو ظاہر کرتی ہے۔ علاوہ ازیں انقلاب اور ردانقلاب‘جنگ اور امن‘جمود اور تیز رفتاری ترقی یازوال کے دور بھی یکے بعد دیگرے آرہے ہوتے ہیں۔مارکس ازم اس سلسلے میں طبقاتی جدوجہد کا نظریہ پیش کرتا ہے ۔بظاہر جو انتشار اور بھول بھلیاں نظر آرہی ہوتی ہیں ان پر لاگو ہونے والے قوانین کو دریافت کرتا ہے۔ کسی ایک یا متعدد سماجوں کے اراکین کی مجموعی کاوشوں کے مطالعے سے ہماری رہنمائی ان کاوشوں کے نتیجے کی سائنسی تعریف تک ہو سکتی ہے اور یہ متصادم کاوشیں ان طبقات کے طرز زندگی اور حیثیت میں فرق سے جنم لیتی ہیں جن میں ہر سماج تقسیم ہوتا ہے۔
مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ’’تاریخ میں جتنے بھی سماج گزرے ہیں ان کی تاریخ طبقاتی جدوجہد سے عبارت ہے۔(بعد ازاں اینگلز نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ماسوائے قدیم اشتراکی سماج کے) آقا اور غلام‘ جاگیردار اور مزارع‘سرمایہ دار اور محنت کشقصہ مختصر یہ کہ جابر اور محکوم مسلسل ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہے ہیں اور ایک ایسی جنگ میں مستقل طورپر مصروف رہے ہیں جو کبھی پوشیدہ ہوتی تھی اور کبھی کھلی اور اس جنگ کا نتیجہ ہر بار یا تو سماج کی مجموعی انقلابی تشکیل نو کی صورت میں برآمد ہوتا تھا یا متحارب طبقات کی باہمی تباہی کی شکل میں۔ جاگیرداری سماج کے کھنڈرات سے ابھرنے والا جدید بورژوا سماج بھی طبقاتی دشمنوں کو ختم نہیں کر سکا اس سے محض اتنا ہی ہو سکاکہ اس نے نئے طبقات کو جنم دیا ہے جبر کے نئے حالات پیدا کیے ہیں پرانی ہیئتوں کی جگہ جدوجہد کی نئی ہیئتوں کو دی ہے۔ ہمارے عہد یعنی سرمایہ داری کے عہد کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ اس نے طبقاتی دشمنیوں کو سادہ کر دیا ہے سوال بحیثیت مجموعی دو عظیم جارح گروہ میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔دوعظیم طبقات کے بعد جو ایک دوسرے کے سامنے براہ راست صف آراء ہیں یعنی بورژوازی اور پرولتاریہ۔‘‘
مارکس کے کمیونسٹ مینی فسٹو سے لیا گیا درج ذیل پیرا ظاہر کرتا ہے کہ مارکس نے جدید سماج میں ہر درمیانے طبقے کی حیثیت کے معروضی تجزیے کے حوالے سے کیا وضاحت کی تھی۔
’’ آج سرمایہ دار طبقے کے سامنے جتنے بھی طبقات صف آراء ہیں ان میں پرولتاریہ ہی حقیقی معنوں میں انقلابی طبقہ ہے۔ باقی طبقات جدید صنعت کے مقابلے میں بوسیدہ ہو کر بالآخر غائب ہو جاتے ہیں ۔ پرولتاریہ اس کی خصوصی اور ناگزیر پیداوار ہے۔ نچلا درمیانہ طبقہ‘ چھوٹی صنعت کا مالک ‘ دوکاندار‘دستکار اور کسان‘سب کے سب بورژوازی کے خلاف اس لئے لڑتے ہیں کہ وہ خود کو درمیانے طبقے کی جزیات کی حیثیت سے بچاسکیں لہذا وہ انقلابی نہیں بلکہ قدامت پرست ہیں۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ رجعتی ہیں کیونکہ وہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر وہ اتفاق سے انقلابی بھی ہیں تو محض اپنے پرولتاریہ میں تبدیل ہوجانے کے خوف سے‘لہذا وہ اپنے حال کے نہیں بلکہ مستقبل کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں وہ اپنا نقطہ نظر ترک کرکے اس کی جگہ پرولتاریہ کا نقطہ نظر اپنا لیتے ہیں۔‘‘
بہت سی تاریخ سے متعلق تحریروں میں مارکس نے مادی نقطہ نظر سے تاریخ نویسی کی انتہائی شاندار اور گہری مثالیں دی ہیں۔ہر انفرادی طبقے اور بعض اوقات کسی طبقے کے اندر موجود پرت یا گروہوں کی حیثیت کا تجزیہ کرکے واضح کیا ہے کہ کیوں اور کیسے’’ہر طبقاتی جدوجہد ایک سیاسی جدوجہد ہوتی ہے۔‘‘مذکورہ بالا اقتباس ایک نمونہ ہے کہ مارکس تاریخی ارتقاء کے نتیجے کا تعین کرنے کیلئے کس طرح ایک کے بعد دوسرے طبقے میں تبدیل ہونے کے دوران آنے والے عبوریمراحل‘ماضی سے مستقبل کی طرف اس کے سفر اور پیچیدہ سماجی رشتوں کے جال کا تجزیہ کرتا تھا۔
مارکس کا معاشی نظریہ اس تھیوری کی انتہائی جامع‘ گہری اور تفصیلی تصدیق اور اس کا اطلاق ہے۔