جواب۔ مارکس سرمایہ دارانہ سماج کی سوشلسٹ سماج میں تبدیلی کے ناگزیر ہونے کا جو نتیجہ اخذکرتا ہے وہ خالصتاً رائج الوقت سماج کے ارتقاء کے معاشی قانون کے تحت ہے۔ مارکس کی وفات کے بعد پچاس برسوں میں محنت کی سماجی شکل نے تیز رفتاری سے ترقی کی ہے اور ہزاروں روپاختیار کر کے اپنا اظہار بہت واضح طورپر کیا ہے۔ بڑے پیمانے کی پیداوار میں اضافہ ‘ سندیکیٹ اور ٹرسٹوں کے ساتھ ساتھ مالیاتی سرمائے کی قوت اور وسعت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ سوشلزم کے ناگزیر ظہور کیلئے کلیدی مادی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اس تبدیلی کی فکری اوراخلاقی قوت محرکہ اور اسے عملی جامہ بنانے والا طبقہ پرولتاریہ جس کی تربیت بذات خود سرمایہ داری نے کی ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد بہت سی شکلیں اختیار کرتی ہیں اس کا آغاز معاشی جدوجہد سے ہوتا ہے اور بالآخر سیاسی شکل اختیار کرتی ہے ۔جس کا مقصد سیاسی اقتدار پر پرولتاریہ کی فتح ہوتا ہے۔پیداوار کی سماجی شکل اختیار کرجانے سے لازمی طورپر ذرائع پیداوار سماج کی ملکیت بن جائیں گے یعنی’’بے دخل کرنے والوں کی بے دخلی عمل میں آئے گی۔‘‘اس تبدیلی کے براہ راست نتیجے کے طورپر محنت کشوں کی پیداواری کارکردگی میں زبردست اضافہ ہو گا‘ اوقات کار کم ہو جائیں گے اور چھوٹے پیمانے کی صنعت کی باقیات کی پسماندہ اور بکھری ہوئی پیدا وار کی جگہ اجتماعی اور بہتر محنت لے لے گی ۔ سرمایہ داری صنعت اور زراعت کے بندھن کو توڑتی ہے ۔ سوشلزم انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ان بندھنوں کو ازسرنو استوار کرنے کیلئے نئے عناصر تیار کرتا ہے۔صنعت اور زراعت کے درمیان اجتماعی محنت کو یکجا کرکے اور سائنس کا شعوری اطلاق کر کے اتحاد قائم کرتا ہے اور انسانی آبادی کو ازسرنو تقسیم کرتا ہے۔ (اس طرح وہ دیہی پسماندگی ‘علیحدگی اور بربریت کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں میں عوام کی وسیع اکثریت کے غیر فطری اجتماع کا بھی خاتمہ کرتا ہے۔)موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی اعلیٰ ترین شکلوں نے ایک نئے قسم کے خاندان ‘ عورت کی حیثیت اور نئی نسل کی پرورش کے حوالے سے نئے حالات پیدا کیے ہیں۔جدید سماج میں سرمایہ داری کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں کی محنت کا استحصال اور خاندان کی ٹوٹ پھوٹ ناگزیر طورپر انتہائی خوفناک ‘تباہ کن اور مکروہ شکلیں اختیارکرتی ہے ۔تاہم جدید صنعت پیداوار کے سماجی انداز میں منظم عمل میں خاندانی حلقے سے باہر عورتوں ‘نوجوانوں اور دونوں جنسوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو جو اہم کردار سونپتی ہے اس سے جنسوں کے تعلق اور خاندان کی ایک اعلیٰ شکل کی ایک نئی معاشی بنیاد ضرور فراہم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خاندان کی ٹیوٹونک عیسائی ہیت کو حتمی اور کامل خیال کرنا اس قدر بے ہودہ بات ہے جتنی قدیم روم‘قدیم یونان یا مشرقی ہیتوں کو جو کہ اجتماعی طورپر دیکھا جائے تو تاریخی ارتقا کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔علاوہ ازیں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حقیقت میں اجتماعی طورپر محنت کرنے والوں کا گروہ ہر دوجنسوں اور ہر عمر کے افراد پر مشتملجواب۔ مارکس سرمایہ دارانہ سماج کی سوشلسٹ سماج میں تبدیلی کے ناگزیر ہونے کا جو نتیجہ اخذکرتا ہے وہ خالصتاً رائج الوقت سماج کے ارتقاء کے معاشی قانون کے تحت ہے۔ مارکس کی وفات کے بعد پچاس برسوں میں محنت کی سماجی شکل نے تیز رفتاری سے ترقی کی ہے اور ہزاروں روپ اختیار کر کے اپنا اظہار بہت واضح طورپر کیا ہے۔ بڑے پیمانے کی پیداوار میں اضافہ ‘ سندیکیٹ اور ٹرسٹوں کے ساتھ ساتھ مالیاتی سرمائے کی قوت اور وسعت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ سوشلزم کے ناگزیر ظہور کیلئے کلیدی مادی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اس تبدیلی کی فکری اوراخلاقی قوت محرکہ اور اسے عملی جامہ بنانے والا طبقہ پرولتاریہ جس کی تربیت بذات خود سرمایہ داری نے کی ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد بہت سی شکلیں اختیار کرتی ہیں اس کا آغاز معاشی جدوجہد سے ہوتا ہے اور بالآخر سیاسی شکل اختیار کرتی ہے ۔جس کا مقصد سیاسی اقتدار پر پرولتاریہ کی فتح ہوتا ہے۔پیداوار کی سماجی شکل اختیار کرجانے سے لازمی طورپر ذرائع پیداوار سماج کی ملکیت بن جائیں گے یعنی’’بے دخل کرنے والوں کی بے دخلی عمل میں آئے گی۔‘‘اس تبدیلی کے براہ راست نتیجے کے طورپر محنت کشوں کی پیداواری کارکردگی میں زبردست اضافہ ہو گا‘ اوقات کار کم ہو جائیں گے اور چھوٹے پیمانے کی صنعت کی باقیات کی پسماندہ اور بکھری ہوئی پیدا وار کی جگہ اجتماعی اور بہتر محنت لے لے گی ۔ سرمایہ داری صنعت اور زراعت کے بندھن کو توڑتی ہے ۔ سوشلزم انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ان بندھنوں کو ازسرنو استوار کرنے کیلئے نئے عناصر تیار کرتا ہے۔صنعت اور زراعت کے درمیان اجتماعی محنت کو یکجا کرکے اور سائنس کا شعوری اطلاق کر کے اتحاد قائم کرتا ہے اور انسانی آبادی کو ازسرنو تقسیم کرتا ہے۔ (اس طرح وہ دیہی پسماندگی ‘علیحدگی اور بربریت کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں میں عوام کی وسیع اکثریت کے غیر فطری اجتماع کا بھی خاتمہ کرتا ہے۔)موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی اعلیٰ ترین شکلوں نے ایک نئے قسم کے خاندان ‘ عورت کی حیثیت اور نئی نسل کی پرورش کے حوالے سے نئے حالات پیدا کیے ہیں۔جدید سماج میں سرمایہ داری کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں کی محنت کا استحصال اور خاندان کی ٹوٹ پھوٹ ناگزیر طورپر انتہائی خوفناک ‘تباہ کن اور مکروہ شکلیں اختیارکرتی ہے ۔تاہم جدید صنعت پیداوار کے سماجی انداز میں منظم عمل میں خاندانی حلقے سے باہر عورتوں ‘نوجوانوں اور دونوں جنسوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو جو اہم کردار سونپتی ہے اس سے جنسوں کے تعلق اور خاندان کی ایک اعلیٰ شکل کی ایک نئی معاشی بنیاد ضرور فراہم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خاندان کی ٹیوٹونک عیسائی ہیت کو حتمی اور کامل خیال کرنا اس قدر بے ہودہ بات ہے جتنی قدیم روم‘قدیم یونان یا مشرقی ہیتوں کو جو کہ اجتماعی طورپر دیکھا جائے تو تاریخی ارتقا کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔علاوہ ازیں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حقیقت میں اجتماعی طورپر محنت کرنے والوں کا گروہ ہر دوجنسوں اور ہر عمر کے افراد پر مشتمل ہونے کے باعث مناسب حالات میں لازمی طورپر انسانی ترقی کا سرچشمہ بن جاتا ہے اگرچہ خودرو اور وحشیانہ سرمایہ دارانہ شکل میں جہاں محنت کش پیداوار کے عمل کی خاطر زندہ رہتا ہے نہ کہ پیداوار کا عمل محنت کش کیلئے ہوتا ہے۔یہ حقیقت بدعنوانی اور غلامی کی بیماری کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔