جواب۔ اول تو یہ تصور ہی غلط ہے کہ مارکس ازم اور جمہوریت ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری کی مالیاتی آمریت(جسے عام طورپر ’جمہوریت‘ قرار دیا جا تا ہے) کے تحت حقیقی جمہوریت قائم ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں‘ چند سالوں بعد آپ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ضرور ڈال سکتے ہیں۔لیکن ذرا غور فرمائیں کہ ان انتخابات میں حصہ کون لیتا ہے۔ صرف وہ لوگ جن کے پاس اس کام کیلئے وافر مقدار میں دولت موجود ہوتی ہے۔ان کی انتخابی مہمات میں پیسہ کون لگاتا ہے؟ بڑی بڑی کارپوریشنیں اور سرمایہ دار۔ لہذا آپ کے پاس کوئی حقیقی متبادل نہیں ہوتا۔ عملاً یہ جمہوریت صرف امیر اور طاقتور لوگوں کیلئے ہے‘یعنی بورژوا جمہوریت۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ منتخب ہونے والی حکومت کے پاس پالیسیوں پر عملدرآمد کے حوالے سے حقیقی معنوں میں زیادہ گنجائش موجود نہیں ہوتی۔اگر امریکہ کے تین امیر ترین اشخاص کے پاس ساڑھے گیارہ کروڑ عام امریکی شہریوں کی اجتماعی دولت کے برابر دولت موجود ہوگی تو درحقیقت ملک کو بھی وہی چلائیں گے۔اپنے معاشی فیصلوں کے ذریعے وہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرتے ہیں یعنی روزگار کے مواقع‘علاج معالجے کی سہولیات اورتعلیم وغیرہ وغیرہ۔ جب ان بڑی بڑی کارپوریشنوں کے مفادات کو خطرہ درپیش ہوتا ہے تو وہ انہیں بچانے کیلئے حکومت کو استعمال کرتے ہیں مثال کے طورپر جب 1973 ء میں چلی میں سلواڈور ایاندے کی جمہوریطورپر منتخب ہونیو الی حکومت نے تانبے کی کانوں اور ٹیلی کمیونیکیشن(جو امریکی کمپنیوں کی ملکیت تھیں) کوقومیانے کا فیصلہ کیا تو ان کمپنیوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے اور پھر سی آئی اے نے چلی میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ایاندے کو قتل کرواکے وہاں کی جمہوری طورپر منتخب ہونے والی حکومت کی جگہ پنوشے کی وحشیانہ فوجی آمریت قائم کر دی۔ 2004 ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں 4 بڑی کمپنیوں نے بش کی انتخابی مہم میں 10.3 ملین ڈالر لگائے بش کے صدر بننے کے تین ماہ میں انکو ٹیکسوں میں چھوٹ کی مد میں 5 ارب ڈالر کا منافع حاصل ہوا۔ اس ایک مثال سے پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت دراصل کتنا بڑا منافع بخش اور مجرمانہ کاروبار ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مختلف سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں میں یہ صلاحیت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ کیونکہ انہوں نے ریپبلیکن اور ڈیمو کریٹک دونوں پارٹیوں میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہوتی ہے۔آخری تجزیے میں حکومت اور سیاسی پارٹیاں بڑے سرمایہ داروں کے ہی اوزار ہیں اور وہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کن پالیسیوں پر عمل درآمد ہوگا۔ ان پارٹیوں کا وجود خلاء میں نہیں ہوتابلکہ ارب پتی سرمایہ داروں اور کارپوریشنوں نے ان میں براہ راست سرمایہ لگایا ہوتا ہے اور یہ انہیں کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ لہذایہ حقیقتاً ’قانون‘’سچائی‘یا ’انصاف‘ کیلئے نہیں بلکہ ان سرمایہ داروں کے مفادات کیلئے کام کرتی ہیں جو ان کے منہ میں لقمے ڈالتے ہیں۔
اس کے برعکس سوشلسٹ انقلاب کے بعد دنیا کے معاشی وسائل نجی ملکیت میں نہیں بلکہ آبادی کی اکثریت کے ہاتھوں ہونگے جو ان کو جمہوری طریقے سے کنٹرول کریں گے اور چلائیں گے۔یہ ایک حقیقی جمہوریت ہوگی جس میں لوگوں کو صحیح معنوں میں اپنی زندگیوں پر اختیار ہوگا۔وہ جمہوری طریقے سے اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے حکومت میں لائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ان نمائندوں کومعیشت پر حقیقی اختیار بھی حاصل ہوگا اور وہ چیزوں کو حقیقی معنوں میں تبدیل بھی کر سکیں گے۔ اگر یہ اہل کار ان کاموں کو احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکیں گے‘جن کے لئے ان کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا تو انہیں فوری طورپر واپس بھی بلایا جا سکے گا ۔اہل کاروں کو ایک ہنر مند مزدور کی اجرت سے زیادہ تنخواہ بھی نہیں ملے گی۔ آج کل کی طرح نہیں کہ ان ’منتخب شدہ‘ اہل کاروں کی ’مراعات‘ان کی تنخواہوں سے بھی تجاوز کر جائیں۔ مختلف امور کی انجام دہی کیلئے ایسے افراد سامنے آئیں گے جو واقعی وہ کام کرنا چاہتے ہوں گے‘ اس لئے نہیں کہ اس کی وجہ سے انہیں اضافی فوائد اور مراعات حاصل ہوں گی۔ یہ اہل کار معاشرے کے تمام اراکین میں سے منتخب ہوں گے۔جیساکہ لینن نے کہا تھا’کوئی باورچی بھی اس قابل ہوگا کہ وزیراعظم بن سکے‘۔ یہ حقیقی معنوں میں عوام کی جمہوریت ہو گی۔
اس مسئلے میں ایک اور پیچیدگی یہ پیدا ہو چکی ہے کہ لوگ عام طورپر مارکسزم کو بھی اس نظام میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں جو سوویت یونین میں قائم تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہاں جمہوریت جیسی کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ سوشلزم نہیں تھا۔وہ سٹالن ازم تھا یعنی ایک ایسا نظام جس میں معیشت ریاست کے ہاتھ میں تھی لیکن شہری کسی بھی طور اسے چلانے میں حصہ دار نہیں تھے۔ نوکر شاہی نے ریاستی مشینری پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی تھی۔اس کا سوشلزم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کیلئے سٹالن کو لاکھوں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا خون کرنا پڑاتھا جن میں اس بالشویک پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اکثراراکین بھی شامل تھے جنہوں نے 1917 ء کے روسی انقلاب کی راہنمائی کی تھی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ حقیقی سوشلزم مارکسزم حتمی جمہوریت یعنی مزدوروں کی جمہوریت پر قائم ہے۔ وہ جمہوریت جو عوام کی اکثریت کے ذریعے عوام کی اکثریت کیلئے ہوتی ہے۔ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ’سوشلزم کیلئے مزدور جمہوریت اتنی ہی ضروری ہے جتنی انسانی جسم کیلئے آکسیجن۔