جواب۔ مارکس ازم تاریخ میں فرد کے کردار کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیں کرتا بلکہ محض یہ وضاحت کرتا ہے کہ افرادیا پارٹیوں کے کردار کا احاطہ تاریخی ارتقاء کی معینہ سطح اور معروضی اور سماجی ماحول کرتا ہے جو آخری تجزیہ میں پیداواری قوتوں کی ترقی سے متعین ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔ جیسا کہ مارکس ازم کے ناقدین کہتے ہیں۔۔۔۔ کہ مردوزن محض معاشی جبریت کی اندھی کارگزاریوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیاں ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے وضاحت کی تھی کہ مردوزن اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن وہ ایسا مکمل طورپر آزاد عاملین کے طورپر نہیں کرتے بلکہ جس قسم کے سماج میں وہ موجود ہوتے ہیں اس کی بنیاد پر انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔ کسی دی گئی صورتحال میں سیاسی شخصیات کی ذاتی خصوصیات یعنی نظریاتی تیاری‘مہارت ‘ہمت و جرات اور ثابت قدمی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے فیصلہ کن لمحات بھی آتے ہیں۔ جب قیادت کا معیار ایسا فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے جس سے صورتحال کا پانسہ پلٹ جائے۔ ایسے ادوار عام نہیں ہوتے بلکہ یہ اسی وقت جنم لیتے ہیں جب ایسے طویل عرصے کے دوران پوشیدہ تضادات رفتہ رفتہ پختہ ہو جاتے ہیں اور جدلیات کی زبان میں مقدار معیار میں بدل جاتی ہے۔ اگرچہ افراد محض اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر سماج کے ارتقاء کا تعین نہیں کر سکتے تاہم انسانی تاریخ میں داخلی عنصر کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔