جواب۔ عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی جانب سے نام نہاد ’’امداد‘‘حاصل کرنے والے ممالک پر جو پالیسیاں مسلط کی جاتی ہیں وہ وہی ہیں جو دنیا بھر کے سرمایہ دار اپنے منافعوں میں اضافے کیلئے کرتے ہیں یعنی ریاست کی جانب سے فراہم کی جانے والی تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتوں پر حملہ ‘ اجرتوں میں کمی‘ چھانٹیاں ‘پینشنوں اور دیگر مراعات میں کمی‘ لیبر قوانین میں اصلاحات‘پبلک سیکٹر میں چلنے والی کمپنیوں کی نجکاری وغیرہ۔ غریب ترین ممالک میں ان پالیسیوں پر اور بھی زیادہ تیز رفتاری سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجہ میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہو تی ہے۔ غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں ماحول کی تباہی کا سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے۔ یہ مظاہرے جن کی شروعات سیاٹل سے ہوئی تھی اوراب ہر اس شہر میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک یا دیگر بین الاقوامی اداروں کے اجلاس منعقد ہو رہے ہوں۔یہ درحقیقت نوجوانوں اورمحنت کشوں کے بڑھتے ہوئے غم و غصے اور مزدور بین الاقوامیت کی غمازی کرتے ہیں۔