جواب۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی حیثیت محض ایک جنس کی مانند ہوتی ہے اس کی قدر کا تعین ان قوانین کی بدولت ہی ممکن ہوتاہے جو دوسری اجناس کیلئے روبہ عمل ہوتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر صنعتی دور یا آزاد انہ مقابلے کے عہد میں انسانی محنت اور جنس ایک ہی شے کی مانند ہوتے ہیں۔ کسی بھی جنس کی قیمت کا تعین اس کی پیداوار پر آنے والی لاگت اور گزر بسر کیلئے درکار ضروری لوازمات کی مقدار پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ محنت کش کام کاج کے قابل رہیں اور بطور محنت کش طبقے کے ختم نہ ہو جائیں ‘اور بدلے میں ان کو صرف اتنا ہی معاوضہ دیا جاتا ہے جتنے میں وہ صرف زندہ رہ سکیں۔اس نظام میں محنت کش طبقے کو زندہ رکھنا اس لئے ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ صنعت کو متحرک رکھ سکیں اور سرمایہ دار منافع بٹورسکیں۔ وہ محنت کش کو اس کی خدمات کا معاوضہ زیادہ نہیں دیتے۔ محنت کش کو تنخواہ یا کام کے بدلے میں اجرت اس قدر کم دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کی سانسوں کی بقا ممکن رہ سکے اور وہ اپنی قوت محنت استعمال کر سکے۔ تاہم کاروبار کبھی اچھا ہوتا ہے کبھی خراب ۔ محنت کش کو کبھی کم معاوضہ ملتا ہے کبھی زیادہ۔بالکل اسی طرح محنت کش بھی اس کم ازکم اجرت سے کم وصول کرتا ہے اور نہ زیادہ۔ جس طرح فیکٹری کا مالک اچھے اور خراب کاروبار کی اوسط کی بنیاد پر اپنی اجناس کی پیداواری لاگت سے نہ تو کم وصول کرتا ہے اور نہ ہی زیادہ‘ اسی طرح محنت کش بھی اس کم از کم اجرت سے نہ تو زیادہ وصول کرے گا اور نہ ہی کم۔ بڑے پیمانے کی صنعت جس قدر زیادہ پیداواری شعبوں پر غالب آتی جائے گی اجرتوں کا یہ معاشی قانون اتنی ہی شدت سے نافذ ہوگا۔ سرمایہ دار کے پاس تو ذرائع پیداوار اور آلات پیداوار ہوتے ہیں۔ جبکہ محنت کش طبقے کے پاس سوائے اپنی قوت محنت بیچنے کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور اسے چارونا چار زندہ رہنے کیلئے اپنے خاندان کی کفالت کیلئے سرمایہ دار کے پاس اپنی قوت محنت بیچنا پڑتی ہے۔