جواب۔ پرولتاریہ نے اس صنعتی انقلاب میں جنم لیا جو 18 ویں صدی کے وسط میں انگلینڈ میں رونما ہوا اور بعد ازاں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل گیا۔بھاپ کے انجن کی ایجاد‘سپننگ مشین ‘ پاور لوم‘ اور دوسرے تکنیکی آلہ جات اور مشینیں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ بنیں۔ایک تو ایجاد شدہ مشینیں زیادہ لاگت کی حامل تھیں اور انہیں اس وقت صرف بڑے سرمایہ دار ہی تیار کروا اور خرید سکتے تھے۔ ان مشینوں نے قدیم ذرائع پیداوار اور پیداواری عمل کی جگہ لی۔ کھڈی اورچرخہ کے مقابلے میں سپننگ مشین اور پاور لوم نے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو پرانا نظام بتدریج ختم ہو گیا۔ اگرچہ نئے نظام کی وجہ سے جدت اور پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن ان مشینوں پر بورژوا (سرمایہ دار)طبقے کے تصرف کے باعث پوری صنعت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور محنت کشوں کی معمولی نوعیت کی ملکیت( کھڈی اور اوزار وغیرہ) بے کار ہوگئی۔ اس کے بعد تمام چیزوں اور صنعتی عمل کو سرمایہ داروں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اور محنت کشوں کو ہر طرح کے آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار سے محروم کر دیا۔ یوں کھڈی پر بنے جانے والی کپڑے کے نظام کی جگہ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے لی اور اس طرح صنعتی نظام کا آغاز ہوا۔
کپڑے کی تیاری میں صنعتی نظام کے آ جانے سے دوسرے شعبوں کی بھی تیزی سے کایا پلٹ گئی اور وہ بھی صنعتی نظام کا حصہ بن گئے۔جن میں فوری طورپر کتابوں کی پرنٹنگ‘پوٹری اور دھات سازی کے کارخانے شامل تھے۔محنت کو زیادہ سے زیادہ محنت کشوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے ایک ہنر مند کاریگر جو کسی بھی شے کو مکمل طورپر تیار کرنے پر قدرت رکھتا تھااب محض اس شے کا ایک حصہ تیارکرتا تھا۔اس سے انفرادی محنت کش کی سرگرمی نہایت سادہ اور لگاتار دہرائی جانے والی میکانکی حرکات تک محدود ہو کر رہ گئی جسے مشین من و عن بلکہ زیادہ بہتر انداز میں سرانجام دے سکتی ہے۔ محنت کی تقسیم کے باعث اشیاء کی تیاری اور ان کی رسد میں تیزی آگئی اور یہ کم لاگت کے باعث سستی بھی ہوتی گئیں۔جنہوں نے دست کاری اور انفرادی طورپر تیار کی جانے والی اشیاء کی جگہ لے لی۔ اس طرز پیداوار میں فنی اور تکنیکی صلاحیت اور عمل باآسانی اور تواتر کے ساتھ دہرائے جا سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا اور مشینوں کی بدولت اشیاء کے معیار میں بھی بہتری آئی۔ اس طرح یہ سارا پیداواری عمل صنعتی نظام کے تابع ہو کر رہ گیا اور سپننگ اور ویونگ کا عمل بھاپ کی مشینوں کا مرہون منت ہو گیا۔ تاہم دوسری طرف یہ ساری بڑی صنعتیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔ اور محنت کشوں کی رہی سہی آزادی یا خود مختاری کا خاتمہ ہوگیا۔ یوں ہنر مند کاریگر اور مینوفیکچرر صنعتی نظام میں ڈھل گئے اور دست کار چھوٹے مالکان سے بڑے سرمایہ داروں کی شکل اختیار کر گئے۔ انہوں نے بڑی بڑی صنعتیں اور ورکشاپیں بنالیں اور سرمایہ بچانا شروع کر دیا اس طرح تقسیم محنت کا ایک نیا نظام معرض وجود میں آیا۔
اس سارے عمل کے نتیجے میں نسبتاً ترقی یافتہ ممالک میں تمام مزدور محنت فروخت کر نے پر مجبور ہوئے اور دست کاری و مینوفیکچرنگ کے تمام شعبے وسعت اختیار کرکے بڑی صنعت کی شکل اختیار کر گئے۔ اس سارے عمل نے ایک جست لگائی اور چھوٹے دستکاروں و ہنرمندوں سمیت سابقہ مڈل کلاس یا درمیانے طبقے کو روند ڈالا۔ محنت کشوں کی پرانی شکل کی ہیت و کیفیت کو بدل کر رکھ دیا اور یوں معاشرہ دو طبقوں میں بٹ گیا۔ دو نئے طبقات نے جنم لیا۔ جنہوں نے دھیرے دھیرے معاشرے کے دوسرے افراد کو اپنے طبقے یا صفوں میں لاکھڑا کیا۔ یہ طبقات درج ذیل تھے۔
1 ۔ بورژوا (سرمایہ دار)طبقہ:
جو تمام ترقی یافتہ ممالک کے ذرائع پیداوار پر قابض ہو گئے اور خام مال و آلات ( مشین‘ فیکٹریاں) جو پیداواری عمل کیلئے ناگزیر تھیں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ طبقہ بورژوا(سرمایہ دار) کہلایا۔
2 ۔ پرولتاریہ( محنت کش )طبقہ:
اس طبقہ کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ صرف اپنی قوت محنت بورژوا طبقے کے پاس فروخت کرنے پر مجبور تھے تاکہ اس کے بدلے میں زندہ رہنے کیلئے ضروری لوازمات کا تبادلہ کرسکیں اساس طبقہ کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ صرف اپنی قوت محنت بورژوا طبقے کے پاس فروخت کرنے پر مجبور تھے تاکہ اس کے بدلے میں زندہ رہنے کیلئے ضروری لوازمات کا تبادلہ کرسکیں اس طبقے کو پرولتاریہ(محنت کش) طبقہ کہا گیا۔