جواب۔ ہاں‘سماجی نظام میں ہر نو کی تبدیلیاں ‘ ملکیتی رشتوں میں ہر انقلاب‘اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ نئی پیداواری قوتوں کو فروغ دیا جاسکے‘ جو کہ پرانے پیداواری نظام اور ملکیتی رشتوں میں ممکن نہیں ہوتا۔ نجی ملکیت نے بذات خود اسی طرح جنم لیا۔ نجی ملکیت ہمیشہ تو نہیں تھی۔ جب ہم عہد وسطیٰ کے آخر کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں ہمیں پیداوار کے نئے طریقے مینو فیکچرنگ کی شکل میں ابھرتے ہوئے ملتے ہیں۔ جو کہ اس وقت جاگیردار یا دستکارکی ملکیت کے تابع نہیں ہو سکتے تھے۔ اس طرح مینوفیکچرنگ نے پرانے ملکیتی رشتوں سے جنم لیا اور اسی طرح ملکیت کی ایک نئی شکل کو جنم دیا جو نجی ملکیت کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔
مینو فیکچرنگ اور وسیع پیمانے پر صنعتی ترقی کے پہلے مرحلے میں نجی ملکیت ہی واحد ممکنہ ملکیتی شکل تھی اور اس پرمنحصر سماجی نظام ہی واحد ممکنہ سماجی نظام تھا۔جب تک یہ ممکن نہیں تھا کہ پیداوار اتنی کی جائے جو سب کیلئے کافی ہو تو کچھ زائدیا فاضل پیداوار کے ذریعے سماجی سرمائے میں اضافہ اور پیداوار ی قوتوں کو ترقی دینے کیلئے ایک غالب طبقے کی ضرورت تھی۔ جس کی جگہ بورژوا نے لی۔ اس کے برعکس پیداواری قوتوں سے باہر سماج میں دوسرے لوگوں کی ضرورت تھی جو آلات پیداوار کو متحرک رکھ سکیں‘ جو ایک غریب اور استحصال زدہ طبقہ نے لی اور یوں ایک راستے کا تعین ہوا۔ جس کے تحت یہ طبقات باہم پیداواری رشتے میں اکٹھے ہوئے ۔ طبقاتی ساخت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ پیداوار کس مرحلے پر ہے۔ درمیانی عہد میں پیداور کا انحصار زراعت پر تھا اور اس عمل کے دوران جاگیردار اور مزارع نے جنم لیا اس عہد کے اختتامی دور میں ہمیں مختلف قصبوں اور شہروں میں گلڈ ماسٹر اور نیز دیہاڑی دار مزدور ملتا ہے۔ سترویں صدی میں گھریلو صنعت اور گھریلو دستکار نظر آتے ہیں۔ جب کہ 19 ویں صدی میں پیداواری قوتوں کا پھیلاؤ ایک بے نظیر سطح تک عمل میں آیا اورآج ایسے ذرائع موجود ہیں کہ انہیں انتہائی کم وقت میں مزید فروغ دیاجاسکتا ہے۔ دوسرا جب یہ پیداواری قوتیں چند بورژوا حضرات کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہوں اور عوام کی بہت بڑی تعداد پرولتاریہ میں بدل چکی ہو سرمایہ داروں کی دولت میں بے تحاشا اضافہ اور عوام کی حالت زار انتہائی گھمبیر اور ناقابل برداشت ہو چکی ہو۔ سوئم‘ یہ زبردست اور باآسانی فروغ پانے والی پیداواری قوتیں نجی ملکیت اور بورژوازی کی حدود سے اس قدر آگے بڑھ چکی ہیں کہ وہ کسی بھیوقت سماجی نظام میں زبردست ہل چل پیدا کر سکتی ہیں۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ نجی ملکیت کے خاتمہ کے نہ صرف امکانات پیدا ہو چکے ہیں بلکہ یہ عمل ہر حالت اور ہر صورت میں لازمی اور ناگزیر ہے۔