|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ۔ آفتاب اشرف|
(یہ مضمون ایلن ووڈز نے 2008ء میں تحریر کیا تھا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس کا اردو ترجمہ اپنے قارئین کیلئے شائع کر رہے ہیں)
بورژوا معاشرے میں ریاست کا سوال مارکسٹوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم اسے سماج سے بالا کھڑے ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر نہیں دیکھتے۔ ہر ریاست کا بنیادی جوہر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مسلح افراد کے جتھوں، پولیس، عدلیہ اور دیگر ادروں کے ساتھ سماج کے ایک طبقے کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے اوربورژوا سماج میں یہ طبقہ سرمایہ دار ہیں۔ مارکسزم اپنے تجزیے کا آغاز اس خیال سے کرتا ہے کہ ’’ طاقت ہر اس پرانے سماج کی دائی ہے جس کے بطن میں نیا سماج پرورش پا رہا ہو‘‘، اور یہ کہ ریاست حتمی طور پر مسلح افراد کے جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے جسے حکمران طبقہ دوسرے طبقوں پر جبر کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کیا کہ سماج کو بدلنے کی جدوجہد میں محنت کش طبقے کو ناگزیر طور ہر حکمران طبقے کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور مخصوص حالات میں اس مزاحمت کے نتیجے میں خانہ جنگی بھی ہوسکتی ہے۔
اصلاح پسندوں، سٹالنسٹوں اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی مدد کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کو مزید قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ ایک انتہائی اہم بات ہے جس پر ہمیں مسلسل زور دینے کی ضرورت ہے۔ تقریباً تمام ممالک میں ٹریڈ یونینوں اور اصلاح پسند پارٹیوں کی قیادت کے ہاتھوں میں ماضی کی نسبت آج کہیں زیادہ طاقت ہے۔ مگر ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ مزدور نوکر شاہی سماج کی سب سے زیادہ قدامت پسند قوت ہوتی ہے اور یہ اپنی اتھارٹی کو سرمایہ دارانہ نظام کو سہارا دینے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ حتمی تجزیے میں انسانیت کا بحران محنت کش طبقے کی قیادت کے بحران میں سمٹ گیا ہے۔
پیداواری قوتوں کی ترقی نے سماج میں محنت کش طبقے کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ اپنے تمام تر ہیروازم کے باوجود انیسویں صدی میں ہونے والی مزدور بغاوتوں کے تنہا رہ جانے اور شکست کھانے کی بنیادی وجہ سماج کی بھاری اکثریت کا کسانوں اور شہری پیٹی بورژوازی پر مشتمل ہوناتھا جو کہ حکمران طبقے کی ریاستی مشینری کو بے تحاشا فائدہ پہنچانے کا سبب تھا۔ 1871ء میں ہونے والی ’’پیرس کمیون‘‘ بھی انہی وجوہات کی بنا پر ناکامی سے دوچار ہوئی۔ مزید برآں کمیون کی کمزوریوں کو قیادت کی طرف سے ہونے والی انتہائی سنجیدہ غلطیوں سے بھی کئی گنا بڑھاوا ملا۔
بیسویں صدی میں کئی دفعہ سوشلسٹ انقلاب کیا جا سکتا تھا۔ اور اگر محنت کش طبقہ 1917ء کے انقلاب کے علاوہ کہیں بھی اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیا ب نہیں ہو سکا، تو اس کی وجہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح اور اس سے پیدا ہونے والے طبقاتی توازن میں نہیں بلکہ مزدور تنظیموں کی قیادتوں کے سیاسی دیوالیہ پن میں تلاش کی جانی چاہیے۔
سوشلسٹ انقلاب محنت کش طبقے کی قیادت کی اصلاح پسندانہ زوال پذیری کے باعث تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آج برسراقتدار آنے والے محنت کش طبقے کو مستقبل کے سوشلسٹ سماج کے لئے سرمایہ داری سے وراثت میں ملنے والی مادی بنیادیں 1917ء میں بالشویکوں کو زارشاہی سے یا 1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں اقتدار پر قبضے کی صورت میں برطانوی، فرانسیسی یا جرمن محنت کشوں کو وراثت میں ملنے والی مادی بنیادوں سے کہیں زیادہ بلند تر سطح پر ہوں گی۔
ذرائع پیداوار میں ترقی کے ساتھ ساتھ چھوٹی نجی ملکیت میں بے تحاشا کمی واقع ہوئی ہے۔ معیشت کا کنٹرول کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہو گیا ہے اور ساتھ میں محنت کش طبقے کے حجم میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر 1936ء کے انقلابی بحران کے وقت فرانس کی آدھی آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ تھاجبکہ آج دیہی آبادی کل آبادی کا صرف 6فیصد ہے۔ تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی جدوجہد کرنے کی قابلیت اور صلاحیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ عہد میں مناسب تنظیم کاری کے ساتھ کی گئی ایک عام ہڑتال کسی بھی ملک کی معیشت کو مکمل طور پر جام کرسکتی ہے۔ لیکن فیصلہ کن سوال محنت کش طبقے کی سیاسی اور تنظیمی تیاری کی سطح اور اس کی قیادت کا ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے کیا نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں؟ اول یہ کہ بڑھتی ہوئی شہرکاری (Urbanization) اور صنعتی تکنیک کاری کی بدولت محنت کش طبقہ انقلاب میں اپنے آپ کو ماضی کی نسبت زیادہ سازگار پوزیشن میں پائے گا۔ دوم یہ کہ ایک عمومی اصول کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انقلابی پارٹی جتنی مضبوط ہوگی، اتنی ہی زیادہ کامیابی کے ساتھ وہ محنت کش طبقے کو اپنے پروگرام پر جیتتے ہوئے اور مسلح افواج کے عام سپاہیوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہوئے، کم از کم تشدد اور جانی نقصان کے بغیر حکمران طبقے کی مزاحمت پر قابو پاسکتی ہے۔
اگر ٹریڈ یونین اور اصلاح پسند قیادتیں اپنے ہاتھوں میں موجود بے پناہ طاقت کو سماج کی تبدیلی کے لئے استعمال کرنے پر تیار ہوجائیں تو سماج کو تبدیل کرنے کا عمل پرامن طریقے سے سر انجام پاسکتا ہے۔ اگر مزدور قیادتیں یہ نہیں کرتیں، تو پھر خون کے دریا بہہ سکتے ہیں اور اس کی ذمہ داری مکمل طور پر اصلاح پسند قیادتوں پر ہوگی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو پچھلی آٹھ دہائیوں میں فرانس، اٹلی، سپین، برطانیہ اور جرمنی میں محنت کش طبقہ کئی بار اقتدار پر قبضہ کرسکتا تھا۔ بے شمار انقلابی مواقع اصلاح پسندی اور سٹالن ازم کی غداریوں کے باعث ضائع ہوگئے۔ قیادت کے جرائم کی قیمت محنت کش طبقے کو اپنے خون سے ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ اس سب کا دارومدار ملکی اور عالمی سطح پر طبقاتی قوتوں کے توازن اور سب سے زیادہ بڑھ کر محنت کش طبقے کے فیصلہ کن حصوں کو مارکسزم کے پروگرام پر جیتنے کی ہماری صلاحیت پر ہے۔
ہم نے کبھی مخصوص حالات کے تحت تشدد اور خانہ جنگی کے امکان کو رد نہیں کیا۔ لیکن بورژوازی اور اصلاح پسندوں کے برعکس، جو ہمیشہ محنت کشوں کو تشدد اور خانہ جنگی کے بھوت سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ’’خونی انقلاب‘‘ کی اپنی خواہش کی تشہیر کا کوئی موقع ضائع نہ کر کے درحقیقت بورژوازی اور اصلاح پسندوں کو بے پناہ فائدہ پہنچانے والے فرقہ نما گروپوں کے برخلاف ہم، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم سماج کی پرامن تبدیلی کے حامی ہیں اور حکمران طبقے اور اصلاح پسند قیادتوں کوکسی بھی تشدد کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
ہم سب پر یہ نہایت واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم سماج کی پرامن تبدیلی کے حامی ہیں اور ایسی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن ساتھ ہم یہ تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ اپنے اقتدار اور مفادات کے تحفظ کے لئے لڑے گا۔ یہی مارکسزم کا روایتی موقف ہے جسے مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی اور آئی ایم ٹی نے سینکڑوں دفعہ اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔
جدلیات یا رسمی منطق؟
لینن ’ریاست اور انقلاب‘ میں لکھتا ہے :
’’مارکس کے مطابق محنت کش طبقے کو ’’پہلے سے تیار شدہ ریاستی مشینری‘‘ کو لازمی طور پر توڑنا اور تباہ کرنا پڑے گا۔ وہ محض اس کو اپنے قبضے میں لینے پر اکتفا نہیں کرسکتا۔‘‘
مارکس نے واضح کیا کہ محنت کش طبقہ پرانی ریاستی مشینری پر تکیہ نہیں کرسکتا اور اِس کو اُسے تباہ کرنا پڑے گا۔ یہ مارکسزم کی ابجد ہے۔ مگر ابجد کے بعد دوسرے حروف تہجی بھی ہوتے ہیں۔ ’ریاست اور انقلاب‘ میں لینن نے سوشلسٹ انقلاب کو ایک سست، بتدریج اور پرامن تبدیلی بنا کر پیش کرنے پر اصلاح پسندوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔لیکن اُسی لینن نے 1920ء میں یہ بھی کہا کہ برطانیہ میں محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں کی بے پناہ قوت کی بدولت ایک پرامن سوشلسٹ تبدیلی ممکن ہے، حتیٰ کہ یہ پارلیمنٹ کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ٹریڈیونینز اور لیبر پارٹی کی قیادت مارکسسٹوں کے پاس ہو۔
لینن کی انقلاب پر پوزیشن ٹھوس اور جدلیاتی تھی نہ کہ رسمی اور تجریدی۔ لینن ہر ملک کے ٹھوس حالات کی روشنی میں انقلاب پر اپنی رائے بناتا تھا اگر چہ یقینی طور پر تمام ممالک میں پرولتاریہ کے بنیادی فرائض ایک سے ہی ہیں۔ جیسا کہ محنت کش طبقے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک طبقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے ایک طبقہ بنے، اُس کے پاس ایک درست مارکسی قیادت رکھنے والی انقلابی پارٹی ہو، لازمی ہے کہ سرمایہ دار طبقے کی مزاحمت پر قابو پاتے ہوئے ریاست کو مسمار کردیا جائے وغیرہ۔
لیکن ان عمومی بنیادی فرائض کی یکسانیت اور درستگی کی وجہ سے کسی بھی انقلاب کی ٹھوس اشکال، آگے بڑھنے کے مراحل اورمخصوص طریقہ کار و لائحہ عمل کے متعلق سوال ختم نہیں ہو جاتا۔ ان چیزوں کو انقلابی پکوانوں کی کسی کتاب سے ایک کھانا بنانے کی ترتیب کی طرح رٹا لگا کر نہیں سیکھا جاسکتا۔ ایسی کوئی کتاب وجود نہیں رکھتی اور ہوتی بھی تو وہ استعمال کرنے والوں کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچانے کا موجب بنتی۔
مختلف ممالک اور عہدوں میں انقلاب مختلف حالات میں برپا ہوگا اور ظاہر ہے کہ انقلابی پارٹی کامخصوص لائحہ عمل بھی اُن حالات کی مناسبت سے تبدیل ہوگا۔ سماج میں پرولتاریہ کا حجم، اس کا دیگر طبقات کے ساتھ تعلق، اُس کی تنظیموں کی مضبوطی، اُس کا تجربہ، ثقافتی معیار، قومی روایات اور مزاج، اِن سب عوامل کو مدِ نظر رکھنا پڑے گا۔
لیکن سب سے اہم اور فیصلہ کن کردار موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی اور اس کی قیادت کی مضبوطی اور پختگی کا ہوگا(اگرچہ یہ مشاہدہ بھی ایک مطلق سچائی کی حیثیت نہیں رکھتا جیسا کہ پیرس کمیون، ہنگری 1956ء اور حال ہی میں وینزویلا میں انقلابی پارٹی کے بغیر انقلاب کیا گیا ہے، اگرچہ اسے سنبھالا اور مضبوط نہیں کیا جا سکا)۔ یہ سب سے اہم سوال ہے کہ پارٹی کیسے تعمیر کی جاتی ہے اور یہ عوامی تحریک کی قیادت کیسے حاصل کرتی ہے۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ بالشویک پارٹی کس طریقۂ کار و لائحہ عمل اور کن نعروں کے ساتھ 1917ء میں ایک فیصلہ کن عنصر بنی۔
مارکسزم کے بنیادی نظریات آج بھی وہی ہیں جو سو سال پہلے تھے لیکن ہمارا کام نظریات کو طوطے کی طرح دہرانے کی بجائے تخلیقی انداز میں اُن میں اضافہ کرنا اور سب سے بڑھ کر اُنہیں محنت کش طبقے کی زندہ تحریکوں پر لاگو کرنے کے قابل بننا ہے۔ یہ تحریکیں زمان و مکاں سے باہر وجود نہیں رکھتیں۔ اگر ہم ایک بانجھ فرقہ نہیں بننا چاہتے اور عوامی تنظیموں میں جڑیں بنانا چاہتے ہیں، تو اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم کسی بھی دئیے گئے وقت میں محنت کش طبقے اور مزدو رتحریک کی تاریخی طور پر متعین کردہ ٹھوس کیفیت سے آغاز کریں۔ یہ ہی ماضی کے عظیم مارکسی مفکرین کا طریقہ کار رہا ہے۔
مارکس اوراینگلز نے اس سوال کو کیسے پیش کیا؟
پیرس کمیون کے تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے مارکس اور اینگلز نے نشاندہی کی:
’’کمیون نے خاص طور پر ایک امر کو ثابت کیا ہے کہ محنت کش طبقہ پہلے سے تیارکردہ ریاستی مشینری پر قبضہ کرکے اُسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘ (کمیونسٹ مینی فیسٹو: 1872ء کے جرمن ایڈیشن کا دیباچہ)
یہ کسی بھی مارکسسٹ کے لئے بنیادی نکات ہیں۔ لیکن مارکسزم بنیادی نظریات کو محض دہرانے کا نام نہیں ہے چاہے وہ کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر معمولی فرقہ پرست مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی طرح کا ایک عظیم مارکسی مفکر ہوتا۔ نظریات کو تجربے کی روشنی میں مزید وسعت دینا اور نکھارنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار ہمیں مارکس اور اینگلز کی تحریروں میں نظر آتا ہے، جن کا ریاست کے متعلق نقطۂ نظر دہائیوں کے عرصے میں ارتقا پذیر ہوا تھا۔
ابتدا سے ہی سائنسی سوشلزم کے بانیوں نے تشدد کے سوال پر اپنا نقطۂ نظر نہایت احتیاط سے پیش کیا کیونکہ وہ ادراک رکھتے تھے کہ اِس سوال کو ایک بے ڈھنگے طریقے سے پیش کرنے میں نہ صرف پرولتاریہ کے مہم جوئیوں اور قبل از وقت بغاوتوں میں ملوث ہو جانے کا اندیشہ ہے بلکہ یہ کمیونزم کے دشمنوں کے ہاتھوں میں پروپیگنڈے کا ایک شاندار بہانہ بھی بن سکتا ہے۔ لہٰذا مارکسزم کے پروگرام سے متعلق پہلی تحریر، کمیونزم کے اصول، میں اینگلز نہایت محتاط طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے:
’’سوال16: کیا نجی ملکیت کا خاتمہ پرامن ذرائع سے کیا جاسکتا ہے؟
جواب: خواہش ہے کہ ایسا ہو جائے اور کمیونسٹ یقینی طور پر اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ کمیونسٹ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سازشیں نہ صرف بے فائدہ بلکہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انقلابات کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق برپا نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ ہر جگہ اور ہر عہد میں مخصوص پارٹیوں کی قیادت اور طبقات کے اختیار سے باہر، حالات کے لازمی نتیجے کے طور پر برپا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر مہذب ملک میں پرولتاریہ کی تحریک کو بزور طاقت دبایا جا رہا ہے اور یہ کرتے ہوئے کمیونسٹوں کے دشمن ہر طرح سے انقلاب کو ابھار رہے ہیں۔ اگر جبر کا شکار پرولتاریہ انقلاب کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ہم کمیونسٹ پرولتاریہ کے مقاصد کا عملی طور پر اتنے ہی اچھے طریقے سے دفاع کریں گے جتنا کہ اب اپنے الفاظ کے ذریعے کر رہے ہیں۔‘‘ (اینگلز، کمیونزم کے اصول، مارکس و اینگلز منتخب تصانیف، جلد اول، صفحہ 89)
عمر کے آخری حصے میں مارکس کی کتاب ’فرانس میں طبقاتی جدوجہد ‘کے مشہور دیباچے میں اینگلز انقلابی حکمت عملی کے سوال کو پھر زیر غور لاتا ہے ۔ بعد میں جرمن سوشل ڈیموکریسی کی قیادت نے اپنی اصلاح پسندانہ پالیسیوں کے جواز کے طور پر اینگلز کے الفاظ کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اِن سطور کا ایک انتہائی سطحی مطالعہ بھی یہ واضح کردیتا ہے کہ اینگلز نے سرکشی کے خیال کو ہرگز مسترد نہیں کیا تھا اور وہ صرف مہم جوئی، قبل از وقت بغاوتوں اور چھوٹے گروپوں کی سازشوں(بلانکزم) کے خلاف انتباہ کر رہا تھا:
’’اچانک حملوں اور چھوٹی شعور یافتہ اقلیتوں کا غیر شعور یافتہ عوام کی قیادت کرتے ہوئے انقلابات کرنے کا عہد گزر چکا ہے۔ سماجی تنظیم کی مکمل تبدیلی کے لئے یہ لازمی ہے کہ عوام خود بھی اس میں شامل ہوں، وہ یہ سمجھ چکے ہوں کہ کیا داؤ پر لگا ہے اور دل وجان سے اِ س کیلئے لڑنے پر تیار ہوں۔ پچھلے پچاس سالوں کی تاریخ نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ لیکن عوام کے یہ سمجھنے کے لئے کیا کیا جائے، طویل عرصے تک مستقل مزاجی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وہ کام ہے جو اب ہم کر رہے ہیں اور جس کی کامیابی دشمن کو مایوس کر رہی ہے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ یہاں اینگلز نے سماج کی انقلابی تبدیلی کی غرض سے عوام کو جیتنے کے لئے انقلابی پارٹی کی ضرورت پر کتنا زور دیا ہے۔ اِ س کے لئے صبر آزما پروپیگنڈے، احتجاج اور تنظیم کاری کا ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جس میں محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں کو جیتنے کے لئے ٹریڈ یونین اور پارلیمانی کام سمیت تمام ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اس موضوع پر دوبارہ واپس آئیں گے۔مخصوص حالات میں محنت کش طبقے کو اقتدار کی پر امن منتقلی کے امکان کو مارکس اور اینگلز نے کبھی رد نہیں کیا، اگرچہ اپنے عہد میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ برطانیہ وہ واحد ملک ہے جہاں ایسے حالات موجود ہیں۔
1886ء کے سرمایہ کے انگریزی ایڈیشن کے دیباچے میں اینگلز لکھتا ہے:
’’یقیناًایک ایسے شخص کی بات سننی چاہیے جس کا سارا نظریہ انگلستان کے حالات اور اقتصادی تاریخ کے تاحیات جاری رہنے والے مطالعے کا نتیجہ ہے، اور جس کو اِس مطالعے نے اِس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ کم از کم یورپ میں انگلستان وہ واحد ملک ہے جہاں پر ناگزیر سماجی انقلاب مکمل طور پر پرامن اور قانونی ذرائع سے کیا جا سکتا ہے‘‘، اگرچہ وہ اضافہ کرتا ہے کہ مارکس کو ’’ بہت ہی کم توقع تھی کہ انگریز حکمران طبقہ اِس پرامن اور قانونی ذرائع سے ہونے والے انقلاب کے سامنے ایک ’غلامی نواز بغاوت‘ کئے بغیر ہتھیار ڈال دے گا۔‘‘
1918ء میں لینن نے بائیں بازو کی بچگانگی اور پیٹی بورژوا ذہنیت کے عنوان سے ایک دلچسپ مضمون لکھا، جس میں سماجی انقلاب کیلئے پرولتاریہ کی حکمت عملی اور طریقہ کار کے متعلق مارکس اور اینگلز کی پوزیشن کا انتہائی تفصیلی جائزہ موجود ہے۔ ہم یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہی لینن ہے جس نے ایک سال قبل ’ریاست اور انقلاب‘ لکھی تھی۔ لینن اِس حقیقت کی جانب توجہ دلاتا ہے کہ ایک مخصوص وقت میں مارکس اور اینگلز یہ سمجھتے تھے کہ برطانیہ میں پرامن طریقے سے سوشلزم لانے اور حتیٰ کہ محنت کشوں کی جانب سے بورژوازی (کی ملکیت)کو ’’خرید لینے‘‘ کا امکان موجود تھا۔ برطانیہ کی بدل جانے والی صورتحال(جیساکہ ہم تھوڑی دیر میں وضاحت کریں گے) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لینن یہاں پر ایک عمومی نقطہ اٹھارہاہے، خاص طور پر بخارن اور ’’بائیں بازو کے کمیونسٹوں‘‘ کو جواب دیتے ہوئے، جن کا موقف تھا کہ یہ کہنا کہ مزدور ریاست بورژوازی کو ’’خرید‘‘ سکتی ہے اصولی طور پر ناقابلِ اجازت ہے:
’’مارکس نے کہا تھا: بعض مخصوص حالا ت میں محنت کش بورژوازی کو خریدنے سے ہرگز انکار نہیں کریں گے۔ مارکس نے انقلاب لانے کے طریقوں اور ذرائع کے متعلق اپنے یا سوشلسٹ انقلاب کی مستقبل کی قیادت کے ہاتھ نہیں باندھے، کیونکہ اُسے بخوبی اندازہ تھا کہ بہت سے نئے مسائل سر اٹھائیں گے، پوری صورتحال انقلاب کے دوران تبدیل ہوجائے گی اور انقلاب کے دوران یہ سب بار بار ہوگا۔‘‘ (لینن، برطانیہ پر، صفحہ نمبر 355-6)
مارکس کا برطانیہ پر موقف
آخر مارکس نے پرامن انقلاب کے امکان کے حوالے سے صرف برطانیہ کی طرف ہی کیوں اشارہ کیا؟ لینن کے مطابق اُس عہد میں برطانیہ ’’ابھی بھی ایک خالص سرمایہ دارانہ ملک کے طور پر ایک ماڈل تھا لیکن فوجی اشرافیہ اور خاصی حد تک نوکر شاہی کے بغیر۔ لہٰذا مارکس کے مطابق برطانیہ میں اُس وقت ایک انقلاب، حتیٰ کہ ایک عوامی انقلاب بھی ’’تیارشدہ ریاستی مشینری‘‘ کو توڑے بغیر ممکن تھا۔‘‘ (لینن، برطانیہ پر، صفحہ نمبر 352)
بعض مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر (ایک جزیرہ جسے بڑی بری فوج کی ضرورت نہیں تھی اور وہ یورپ پر اپنا تسلط بحری طاقت اور ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت قائم رکھتا تھا) برطانیہ میں ریاست دوسرے یورپی ممالک کی نسبت کمزور تھی، جن میں ایسے قدرتی دفاع کی غیر موجودگی نے بڑی بری افواج کی ضرورت کو نوکرشاہی اور جنگ پرستی جیسی برائیوں سمیت جنم دیا۔ مارکس سامراجیت اور اجارہ دارانہ سرمایہ داری کے ظہور سے پہلے ایک ایسے دور میں لکھ رہا تھا جب برطانوی سرمایہ داری ابھی اپنے ترقی پسندانہ عہد میں تھی۔ لینن وضاحت کرتا ہے کہ 1917ء کے آتے آتے مارکس کا برطانیہ پر موقف درست نہیں رہ گیاتھا، کیونکہ سامراجی زوال پذیری کے عہد میں برطانیہ اور امریکہ میں ریاست بنیادی طور پر ویسی ہی تھی جیسی کہ دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں۔
اس سب کے باوجود انیسویں صدی کے برطانیہ میں ایک پرامن تبدیلی کے امکان کے بارے میں مارکس کا نقطہ نظر بنانے میں ریاست کا ترقی پذیر کردار اور فوجی و نوکر شاہانہ پرت کی نسبتاً کمزوری صرف ایک عنصر تھا، اور یہ ہرگز بھی واحد وجہ نہ تھی۔ مارکس کے خیال میں برطانوی محنت کش طبقے اور اُس کی تنظیموں کی طاقت وہ بنیادی وجہ تھی جس کی بدولت محنت کش پرامن طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرسکتے تھے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے یہ بھی کہا کہ حکمران طبقہ مزدور حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ’’غلام مالکان کی بغاوت‘‘ بھی کرسکتا ہے۔
لینن یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سی ٹھوس وجوہات تھیں جن کی بدولت مارکس اور اینگلز نے برطانیہ میں ایک پرامن انقلاب کے امکان کے بارے میں سوچا:
’’مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اُس وقت برطانیہ میں سرمایہ دار محنت کشوں کی اطاعت کرنے پر مجبور ہو سکتے تھے: 1) کسانوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے آبادی کی بھاری ترین اکثریت کا محنت کشوں پر مشتمل ہونا (1870ء کی دہائی میں واضح علامات نظر آرہی تھیں کہ دیہی محنت کش تیزی سے سوشلزم کی طرف مائل ہوں گے)۔ 2) پرولتاریہ کی ٹریڈ یونین تنظیموں کی شاندار صورتحال (اُس وقت برطانیہ اس معاملے میں باقی تمام ممالک سے آگے تھا)۔ 3) ایک صدی سے مہیا سیاسی آزادی کے تحت تربیت پانے والے پرولتاریہ کا نسبتاً بلند ثقافتی معیار۔ 4 ) برطانیہ کے انتہائی منظم سرمایہ دار طبقے (جو اُس وقت دنیا کا سب سے منظم سرمایہ دار طبقہ تھا) کی سیاسی اور اقتصادی مسائل کو سمجھوتے کے ذریعے حل کرنے کی پرانی عادت۔ یہ وہ تمام وجوہات تھیں جنہوں نے اِس خیال کو جنم دیا کہ برطانوی سرمایہ داروں کی محنت کشوں کے سامنے پرامن اطاعت گزاری ممکن تھی۔‘‘ (لینن، بائیں بازو کی بچگانگی اور پیٹی بورژوا ذہنیت، صفحہ نمبر 356-7)
اِن سطور سے واضح ہے کہ لینن کے مطابق زیربحث سوال انیسویں صدی کے برطانیہ میں ریاست کی تاریخی خصوصیات تک ہرگز محدود نہیں ہے۔ لینن وضاحت کرتا ہے کہ سماج کی پرامن تبدیلی کے امکان کو جنم دینے والی بنیادی کیفیت طبقاتی قوتوں کے توازن کے غیر معمولی طور پر سازگار ہونے کے ساتھ جڑی ہے جو کہ بذات خود اِس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ اُس وقت برطانیہ وہ واحد ملک تھا جہاں سرمایہ دارانہ صنعت پوری طرح تشکیل پا چکی تھی۔
اگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج برطانوی ریاست دیگر سرمایہ دارانہ ممالک میں ریاست جیسی ہی ہے، تو دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے سو سالوں اور خصوصاً 1945ء کے بعد ذرائع پیداوار کی ترقی نے ہر جگہ محنت کش طبقے کی مضبوطی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طبقاتی قوتوں کا توازن بھرپور طریقے سے پرولتاریہ کے حق میں تبدیل ہوگیاہے۔ مارکس کے عہد میں محنت کش طبقہ صرف برطانیہ میں سماج کی اکثریت بناتا تھا۔ آج پرولتاریہ ہر ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک میں سماج کی فیصلہ کن اکثریت ہے، جبکہ رجعت کی سماجی بنیادیں، خاص طور پر کسان وقت کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک ختم ہوگئے ہیں۔ خاص کر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مستقبل کے سوشلسٹ انقلاب میں اس سب کے بہت اہم اثرات ہوں گے۔
طبقاتی قوتوں کا توازن
فرانس اور دیگر ممالک میں کسانوں کے خاتمے نے رجعت کی سماجی بنیادیں کمزور کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں کسان بوناپارٹسٹ اور کسی حد تک فاشسٹ رجعت کی ریڑھ کی ہڈی بنا چکے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت بذات خود ایک گارنٹی دیتی ہے کہ رجعت کا خطرہ ختم ہوچکا ہے؟ ہرگز نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں بھی، جہاں پچھلے ایک سو سال سے بھی زائد عرصے سے پرولتاریہ سماج کی بھاری ترین اکثریت ہے، اگر محنت کش طبقہ سماج کو بدلنے میں ناکام رہتا ہے تو ایک شاہی بونا پارٹسٹ بغاوت کی صورت میں بوناپارٹسٹ رجعت کے امکانات موجود ہیں (اگرچہ آج بادشاہت اپنی ماضی کی قوت کھو چکی ہے، لیکن ابھی بھی سماج کی پسماندہ ترین پرتوں میں اس کی قابل ذکر حمایت موجود ہے)۔اور اٹلی، سپین اور یونان جیسے ممالک میں یہ بات اور بھی زیادہ درست ہے، جہاں سرمایہ داری کی انتہائی کمزوری گہرے ہوتے ہوئے سیاسی بحران اور انتشار میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔
طبقاتی پروگرام
ہم محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں اور نوجوانوں کو رجعت کے خطرے سے کیسے آگاہ کریں؟ یہ لازمی ہے کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو رجعت کے خطرے سے متنبہ کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر کیڈرز کو فاشزم اور بوناپارٹ ازم کے بارے میں واضح جانکاری سے مسلح کرنا ضروری ہے۔ ایک بوناپارٹسٹ حکومت غیر مستحکم ہوگی اور شاید چند سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکے۔ لیکن چلی، یونان اور ارجنٹائن کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسی حکومت محنت کش طبقے کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہوگی۔ ’’جمہوری‘‘ بورژوازی اپنی طبقاتی حکمرانی کادفاع کرنے کیلئے محنت کشوں کی تنظیموں کے خلاف فاشسٹ جتھوں کو استعمال کرنے اور قتل و تشدد سمیت ہر قسم کے خوف و ہراس پھیلانے سے ہرگز نہ ہچکچائے گی۔
لیکن لازمی ہے کہ حسِ توازن کو برقرار رکھا جائے۔ ’’فاشزم آنے والا ہے‘‘ کے متعلق فرقوں کی تیز چیخیں صرف محنت کشوں اور نوجوانوں کی اُس اقلیت کو گمراہ کرنے کاسبب بنتی ہیں جو بدقسمتی سے اُن کے زیراثر آجاتے ہیں۔ اُنہیں فاشزم سمیت کسی بھی چیز کی سمجھ نہیں ہے۔ وہ عہدِحاضر کی کیفیت، طبقاتی قوتوں کے توازن کی حقیقی صورتحال اور بورژوازی کے مفادات کو تجزیے میں نہیں لاتے۔
سرمایہ داری کی بند گلی پیٹی بورژوازی اور لمپن پرولتاریہ کے حصوں کو پاگل پن کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ مخصوص حالات میں وہ محنت کش طبقے کی حمایت کرسکتے ہیں، جب طبقہ اپنے عمل میں یہ ثابت کرے کہ وہ سماج کا حقیقی آقا بننے کے لئے تیار ہے۔ لیکن اگر محنت کش طبقہ اپنی قیادت کے ہاتھوں مفلوج ہوجائے، تو یہ پرتیں رجعت کی طرف جاسکتی ہیں۔
تمام ممالک میں نسل پرستانہ حملوں میں مسلسل اضافہ سرمایہ داری کے بحران کا ایک عکس ہے اور ناامیدی کا شکار لمپن پرتوں کے پاگل پن کا اظہار کرتا ہے۔ معاشی عروج کے دوران سرمایہ داری کو سستی مزدوری کے لئے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت تھی۔ اب انہیں سرمایہ داری کے بحران کا موجب قرار دے کر قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مارکسسٹوں کو نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں اگلی صفوں میں ہونا چاہیے۔ لیکن نسل پرستی کے خلاف جدوجہد ایک طبقاتی لڑائی ہے نہ کہ نسلی۔ سیاہ فام، ایشیائی، ترک اور عرب محنت کشوں کے مفادات وہی ہیں جو اُن کے سفید فام بہن بھائیوں کے ہیں۔ اِس امر پر ہر وقت زور دینے کی ضرورت ہے۔ محنت کشوں کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش سے زیادہ اور کوئی چیز نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ٹراٹسکی نے کی تھی کہ فاشزم کے خلاف جدوجہد ایک جسمانی لڑائی ہے۔ تارکین وطن پر فاشسٹ حملوں کو چپ چاپ سہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دفاع کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ باقی محنت کش طبقے سے کٹ کر تارکین وطن یا نسلی اقلیتوں پر مبنی دفاعی گروپ بنانے سے نسل پرستوں کو صرف فائدہ ہی ہوتا ہے، جیسا کہ اس خیال سے بھی کہ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی قیادت صرف تارکین وطن کو ہی کرنی چاہیے۔ ہمیں شاپ کمیٹیوں، ٹریڈ کونسلوں، ٹریڈ یونینز کے ذریعے سیاہ فام اور سفید فام محنت کشوں کی مشترکہ دفاعی کمیٹیاں بنانے کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔
نسل پرستی اور فاشزم کے خلاف جدوجہد کو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے تناظر کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ایک سوشلسٹ حکومت کے منتخب ہوجانے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ مزدور قیادت کی بورژوازی سے سمجھوتے کی پالیسیاں بحران کو مزید گہرا کرنے اور رجعت کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنیں گی۔ رداصلاحات کی پالیسی پیٹی بورژوازی کو مزید بیگانہ کرتے ہوئے اس کے کچھ حصوں کو فاشسٹوں کی جانب دھکیل دے گی۔
جب حکمران طبقے کے لئے ’’عمومی‘‘ طریقوں سے محنت کش طبقے کو قابو میں رکھنا ناممکن ہوجائے گا تو وہ فوج کی مدد لینے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ فوجی آمریت کی سمت میں جانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے پارلیمانی بونا پارٹ ازم کا سہارا لیا جا سکتا ہے، جیسے کہ جرمنی میں ہٹلر سے قبل وان پاپن اورسکلیشر کی حکومتیں تھیں۔
اگر مارکسی رجحان اس قابل ہوا تو اس سب کو ہونے سے روکنے کی خاطر محنت کشوں کی پارٹیوں اور تنظیموں کا ایک متحدہ محاذ بنانے کے لئے ایک زبردست کیمپین چلانا لازمی ہوگا۔
یہ ساری صورتحال دونوں عالمگیر جنگوں کے درمیانی عرصے سے مختلف ہے۔ اُس وقت فاشسٹوں کو کسانوں، طلبہ اور پیٹی بورژوازی کی صورت میں اچھی خاصی سماجی بنیادیں حاصل تھیں۔ اب سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ محنت کش طبقہ پہلے کی نسبت ہزاروں گنا مضبوط ہے، کسان تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور وائٹ کالر ملازمین مثلاً اساتذہ، سرکاری ملازم، بینکوں کے ملازم وغیرہ پرولتاریہ کے بہت قریب آچکے ہیں۔
ان حالات میں بورژوازی ایک ننگی آمریت کی طرف جانے سے قبل کئی مرتبہ سوچے گی۔ اگر مزدور تحریک درست سوشلسٹ پالیسیوں سے مسلح ہوئی تو ایسی حرکت کا نتیجہ بورژوازی کے اقتدار کے مکمل خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
لینن نے وضاحت کی تھی کہ انقلاب سے فوراً پہلے کی صورتحال کا ایک خاصہ درمیانے طبقے کا ہیجان ہوتاہے۔ سرمایہ داری کے بحران سے تنگ آئی پیٹی بورژوازی باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے ہر طرف ٹکریں مارتی ہے۔
اگر محنت کش طبقہ اور اُس کی تنظیمیں ایک جراتمندانہ قیادت فراہم کریں گی تو پیٹی بورژوازی اُن کے پیچھے چلنے لگے گی۔ لیکن ایسی قیادت کی عدم موجود گی میں درمیانہ طبقہ مختلف سمتوں میں جھکاؤ کرسکتا ہے۔ آج یورپ میں پیٹی بورژوازی کے ہیجان کی جھلک ہمیں مختلف اقسام کے رجعتی مظاہر میں نظر آرہی ہے۔ مثلاً شمالی لیگ، برلیسکونی، ایم ایس آئی، آسٹرین فریڈم پارٹی، گولڈن ڈان وغیرہ۔
لیکن جب محنت کش طبقہ حرکت میں آنا شروع ہوگا تو یہ سب بہت تیزی سے بدل جائے گا۔ خاص طور پر اگر دایاں بازو اقتدار میں آتا ہے اور اُن کے پروگرام پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو اِ س کے نتیجے میں پیٹی بورژوازی میں اُن کی بنیادیں بہت تیزی سے ختم ہو جائیں گی۔
اِن رجعتی تحریکوں کا وجود وہ قیمت ہے جو ہمیں ماضی میں سوشلسٹ اور ’’کمیونسٹ‘‘ قیادت کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے چکانی پڑرہی ہے۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو ان تھک جدوجہد کے ذریعے ایک حقیقی سوشلسٹ پروگرام پر جیتتے ہوئے ہی مستقبل میں رجعت کے راستے کو مکمل طور پر بند کیا جاسکتا ہے۔
لینن اور ’’دفاع پرستی‘‘
1914ء سے 1917ء تک لینن کی انقلابی حکمت عملی کے متعلق پوزیشن کے ارتقا سے تجریدی سیاست اور جدلیاتی طریقہ کار کے مابین فرق کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اگست 1914ء میں ہونے والی دوسری انٹرنیشنل کی پھوٹ نے ایک بالکل نئی صورتحال کو جنم دیا۔ سوشل ڈیموکریسی کی بے مثال غداری کے باعث عالمی سطح پر مارکسزم کی چھوٹی اور سماج سے کٹی ہوئی قوتوں کو دوبارہ سے منظم کرتے ہوئے نظریاتی تعلیم دینا ضروری تھا۔ اس دور میں لینن نے عالمگیریت کے بنیادی اصول پر زور دیتے ہوئے وطن پرستی کی تمام اقسام کی سخت مخالفت کی، اور پرانی انٹرنیشنل کی طرف واپسی کو ناممکن قرار دیا۔ بالشویک لیڈروں کے شکوک و شبہات اور تذبذب کا خاتمہ کرنے کے لئے لینن نے ’’سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دو‘‘ اور ’’اپنی بورژوازی کی شکست کم تر برائی ہے‘‘ جیسے خیالات کو نہایت واضح انداز میں بیان کیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات وہ مبالغہ آمیزی کرجاتا تھا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا تھا کہ ’’چھڑی کو سیدھا‘‘ کرنے کے لئے لینن اسے دوسری سمت کچھ زیادہ ہی موڑ گیا تھا۔ لیکن یہ امر شک و شبے سے بالاتر ہے کہ بنیادی مسائل پر لینن بالکل درست تھا۔ لیکن جب تک ہم اُس کا طریقہ کار نہیں سمجھیں گے، صرف یہی نہیں کہ اُس نے کیا لکھا بلکہ کیوں لکھا، تب تک ہم مسائل میں پھنستے رہیں گے۔
بائیں بازو کے انتہا پسند اور فرقہ پرست گروپ ایک سطر سمجھے بغیر لینن کے الفاظ دہراتے رہتے ہیں۔ وہ جنگ پر لینن کی تحریروں کو زمان و مکاں سے باہر ایک مطلق سچائی سمجھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اُس وقت لینن ایک مخصوص تاریخی پس منظر میں عوام کے لئے نہیں بلکہ مٹھی بھر کیڈرز کے لئے لکھ رہا تھا۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھتے، تب تک ہم نہایت بنیادی غلطیاں کرسکتے ہیں۔ شاؤنزم کا مقابلہ کرنے اور سوشل ڈیموکریسی، خصوصاً اس کے بائیں بازو (کاؤتسکی وغیرہ) کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کے ناممکن ہونے پر زور دینے کی غرض سے لینن نے بعض ایسے کلیے استعمال کئے جو بلاشبہ مبالغہ آمیزی پر مبنی تھے۔ مثال کے طو رپر ان مبالغہ آمیزیوں کی وجہ سے اس نے ٹراٹسکی کی پوزیشن کو ’’اعتدال پسندانہ‘‘ قرار دیا، جو کہ بالکل غلط تھا، اس عہد میں لینن کی پوزیشنوں کی یک طرفی تشریح سے بے شمار الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔
مارچ 1917ء کے بعدروس واپسی پر لینن نے اپنی پوزیشن میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ ایسا نہیں تھا کہ اُس کی سامراجی جنگ کی مخالفت میں کوئی کمی آگئی تھی یا اُس نے سوشل شاؤنزم کی مخالفت میں کچھ لچک پیدا کردی تھی۔ وہ جنگ کے سوال پر بالشویک لیڈروں کی طرف سے کسی بھی انحراف کے بارے میں نہایت محتاط تھا۔ مگر اب یہ صرف ایک نظریاتی سوال نہیں بلکہ عوام کی زندہ تحریک کا سوال بن چکا تھا۔
مارچ 1917ء کے بعد لینن کی پوزیشن اُن نعروں سے کافی مختلف تھی جو اُس نے اس سے پہلے دیے تھے۔ اُس نے دیکھا کہ مخصوص ٹھوس صورتحال میں محنت کشوں اور کسانوں کی ایک بڑی تعداد کی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ’’انقلاب کے دفاع‘‘ کے متعلق غلط فہمیاں اور ابہام موجود تھا۔عوام کے حقیقی موڈ سے جڑنے کے لئے ان حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری تھا۔ لینن کا پرانی پوزیشن پر قائم رہنا محض ایک کتابی عمل ہوتا، یہ بالشویکوں کو محنت کشوں اور کسانوں کی حقیقی تحریک سے کاٹ کر رکھ دیتا۔ صرف بے کار فرقہ پرور اور لکیر کے فقیر ہی اس فرق کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
سوویتوں کے بالشویک دھڑوں سے خطاب کرتے ہوئے لینن نے وضاحت کی:
’’عوام اس سوال کونظریاتی نہیں بلکہ عملی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہماری غلطی ہمارے نظریاتی نقطہ نظر میں ہے۔ طبقاتی شعور رکھنے والا پرولتاریہ ایک انقلابی جنگ کے لئے رضامند ہوسکتا ہے جو کہ درحقیقت انقلابی دفاع پرستی کا تختہ الٹ دے۔ سپاہیوں کے نمائندگان کے سامنے اس معاملے کو عملی انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ہم امن پرست ہرگز نہیں ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ: کون سا طبقہ جنگ کر رہا ہے؟ بینکوں سے منسلک سرمایہ دار طبقہ سامراجی جنگ کے علاوہ کوئی اورجنگ نہیں کرسکتا۔ جبکہ محنت کش طبقہ ایسا کرسکتا ہے۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 20، صفحہ نمبر 96)
درحقیقت ’’انقلابی شکست پسندی‘‘ کے نعروں نے عوام کو اکتوبر انقلاب کے لئے تیار کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ’’روس کی شکست کم تر برائی ہے‘‘ نے نہیں بلکہ ’’امن، روٹی اور زمین‘‘ اور ’’تمام اقتدار سوویتوں کو‘‘ کے بالشویک نعروں نے اکتوبر کی سرکشی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ہم ان نعروں کے ٹھوس مواد کا بعد میں تجزیہ کریں گے۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ مزدور تحریک کے طبقاتی شعور کی حقیقی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دئے جانے والے لچکدار لائحہ عمل کے بغیر عوام کو جیتنا ناممکن ہے۔ اقتدار کو فتح کرنے کی بات کرنے سے پہلے عوام کو فتح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اِس کے بغیر سرکشی، ریاست کو گرانے، ناگزیر خانہ جنگی، انقلابی تشدد اور فوجی تیاریوں جیسی تمام باتیں محض گپ شپ بن کر رہ جاتی ہیں۔
’’ہر سبزی کا اپنا موسم ہوتا ہے‘‘ ہر نعرے کا اپنا وقت اور جگہ ہوتی ہے۔ نعروں کو زمان و مکاں کی قید سے آزاد سمجھنا فرقہ پرست نفسیات کاخاصہ ہوتا ہے کیونکہ اُن کے لئے سیاست چھوٹے گروپوں کامعاملہ ہوتا ہے جن کا حقیقی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ عوام کا نقطہ نظر اور شعور اُن کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن ہراول پرتوں سے آغاز کرتے ہوئے عوام کو جیتنے کی کوشش کرنے والے ایک حقیقی مارکسی رجحان کے لئے معاملہ بالکل مختلف ہوتاہے۔
جب لینن روس واپس آیا تو بالشویک پارٹی کا ایک حصہ بے صبری کا شکار ہوکر بہت آگے نکلنے کا خواہشمند تھا۔ بائیں بازو کے انتہا پسندوں اور انارکسٹوں کی طرح انہوں نے ’’عبوری حکومت مردہ باد‘‘ کانعرہ لگایا۔ یہ سرکشی کا نعرہ تھا۔ لینن نے کیا رویہ اپنایا؟ اُس نے اِس کی مکمل مخالفت کی۔ کیوں؟ کیونکہ حقیقت میں تحریک جس مرحلے پر تھی یہ نعرہ اس سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ لینن نے، جو کہ اپنے رگ و ریشے تک انقلابی تھا، اِس نعرے کی سختی سے مخالفت کی اور عوام کو جیتنے کے لئے پارٹی کو ’’صبر کے ساتھ وضاحت کرو‘‘ کے نعرے سے مسلح کیا۔
کیا یہ اقتدار پر، پرتشدد قبضے کی انقلابی پوزیشن چھوڑ دینے کی ایک اور مثال نہیں ہے؟ کیا یہ لینن کا فرض نہیں تھا کہ وہ خانہ جنگی کی وکالت کرتا؟ درحقیقت، اس کی وکالت کرنا تو دور کی بات ہے، ایک وقت میں لینن نے اُن لوگوں کی شدید مذمت کی جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ لینن خانہ جنگی کا حمایتی ہے۔ اُس نے بالکل درست طور پر اس امر کا انکار کیا کہ بالشویک تشدد کے حامی ہیں اور تشدد کی تمام تر ذمہ داری حکمران طبقے پر ڈالی۔ یہ بات بائیں بازو کے اُن انتہا پسندوں کو ہرگز پسند نہیں آئی جو یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ سوشلسٹ انقلاب کا 9/10 کام پروپیگنڈے، احتجاج، وضاحت اور تنظیم کاری کے ذریعے عوام کو جیتنے پر مشتمل ہوتاہے۔ اِس سب کے بغیر سرکشی اور خانہ جنگی کے متعلق تمام گفتگو کے صرف دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں۔۔۔ یا تو ایسی کھوکھلی گپ شپ جو کہ شراب خانوں میں بیٹھنے والے سوشلسٹوں کا خاصہ ہوتی ہے اور یا پھر غیر ذمہ دارانہ مہم جوئی جسے مارکسزم کی اصطلاح میں بلانکزم کہا جاتا ہے۔
لینن نے اس موضوع پر کہا:
’’اس سے پہلے کہ لوگ اس کی ضرورت کو سمجھ جائیں، خانہ جنگی کی باتیں کرنا بلاشبہ بلانکزم میں گرجانا ہے‘‘ (لینن مجموعہ تصانیف، جلد 21، صفحہ نمبر 43)
بالشویک نہیں بلکہ یہ بورژوازی اور ان کے اصلاح پسند اتحادی تھے جو مسلسل تشدد اور خانہ جنگی کے بھوت کا ڈراوا دیتے رہے۔ لینن نے اس کا کیا جواب دیا؟ کیا اُس نے ’’بے خوف‘‘ انقلابی تقریریں کرتے ہوئے چیلنج کو قبول کیا؟ کیا اس نے کھلے عام خانہ جنگی کی ناگزیریت کے بارے میں باتیں کیں؟ اس کے برعکس اس نے بار بار اس امر کاا نکار کیا کہ بالشویک تشدد کے حمایتی ہیں۔ 25 اپریل کو اُس نے پراودا میں ’’منسٹر نیکراسوف‘‘ کے خلاف احتجاج کیا جو کہ یہ کہہ رہا تھا کہ بالشویک ’’تشدد کا پرچار‘‘ کر رہے ہیں:
’’وزیر صاحب، جو کہ ’’پیپلز فریڈم پارٹی‘‘ کے ممبر ہیں، آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ منسٹر گوشوف ہیں جو تشدد کا پرچار کرتے ہیں جب وہ افسروں کو ہٹانے پر سپاہیوں کو سزا دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ آپ کا دوست، ریپبلیکنز کا منظم قتل عام کا حامی اخبار رسکایا وولیا ہے جو تشدد کا پرچار کرتا ہے۔
پراودا اور اس کے حامی تو تشدد کا پرچار نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ نہایت واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ فی الوقت ہمارا کام شاؤنسٹ زہر کا شکار ہو جانے والی پیٹی بورژوزی کے مسائل کے مقابلے میں محنت کش عوام کو ان کے مسائل سمجھانا ہے۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 20، صفحہ نمبر 171)
4 مئی کو بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے لینن کی لکھی ہوئی ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد کا مقصد پیٹروگراڈ کی مقامی قیادت کو واقعات سے بہت آگے دوڑنے سے روکنا تھا۔ اس کا مقصد تھا کہ کسی بھی تشدد کاذمہ دار عبوری حکومت اور اس کے حامیوں کو ٹھہرایا جائے اور ’’بورژوا اقلیت پر اکثریتی رائے کا حترام نہ کرنے‘‘ کا الزام لگایا جائے۔ اس قراداد سے دو پیراگراف درج ذیل ہیں:
’’1۔ پارٹی کارکنان اور مقررین کو چاہیے کہ وہ بورژوا اخبارات کے اِس قابل نفرت جھوٹ کو سختی سے رد کریں کہ ہم خانہ جنگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ ایک قابل نفرت جھوٹ ہے، کیونکہ ایسے وقت میں، جب سرمایہ داروں اور ان کی حکومت عوام کے خلاف تشدد کا استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی، جب سپاہیوں اور محنت کشوں کی بھاری اکثریت کھل کر اپنی رضامندی کا اظہار کر رہی ہے، آزادی سے تمام سرکاری افسران کو منتخب اور تبدیل کر رہی ہے۔۔۔ ایسے وقت میں خانہ جنگی کی باتیں کرنا ناپختگی اور پاگل پن ہے۔ ایسے وقت میں آبادی کی اکثریت کی رضامندی کی پوری اطاعت ہونی چاہیے اور غیر مطمئن اقلیت کو اس رضا کو آزادانہ تنقید کا نشانہ بنانے کی اجازت بھی۔ اگر تشدد ہوا۔ تو اس کی ذمہ داری عبوری حکومت اور اس کے حمایتیوں پر عائد ہوگی۔
2۔ سرمایہ داروں کی حکومت اور اس کے اخبار مبینہ خانہ جنگی کی پرزور مذمت کرتے ہوئے، صرف اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آبادی کی ایک معمولی اقلیت بنانے والے سرمایہ دار اکثریتی رضا کی اطاعت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 20، صفحہ نمبر 245)
لینن جانتا تھا کہ محنت کش طبقہ تجربے سے سیکھتا ہے، خاص طور پر بڑے واقعات کے تجربے سے۔ایک چھوٹا انقلابی رجحان صرف ہر مرحلے پر عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہ کر، ان کی روزمرہ کی لڑائیوں میں شریک ہو کر، تحریک کی حقیقی صورتحال سے مطابقت رکھنے والے نعرے دے کر اورصبر کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے ہی عوام کی توجہ حاصل کر سکتا ہے۔
خانہ جنگی اور سرکشی کے بارے میں تیزوتند گفتگو سے عوام، حتیٰ کہ ہراول پرتوں کو بھی نہیں جیتا جاسکتا۔ یہ صرف ان کو دور بھگائیں گی۔ حتیٰ کہ جیسے ہم مندرجہ بالا بحث کے دوران دیکھ چکے ہیں، یہ بات ایک انقلاب کے دوران بھی درست ہے۔ آج کے عہد میں تو یہ ماضی کی نسبت کئی سو گنا درست ہے جب سرمایہ داری کو ایک انقلابی طریقہ کار سے اکھاڑ پھینکنے کا سوال سب سے شعور یافتہ مزدوروں کے ذہنوں میں بھی سرفہرست نہیں ہے۔ اس کے برعکس، لازم ہے کہ تشدد اور خانہ جنگی کی ذمہ داری اصلاح پسند قیادت کے کندھوں پر ڈالی جائے جو کہ طاقت کو پرامن طریقے سے ہاتھوں میں لینے کا اختیار رکھتے ہیں، اور ان کا اس سے انکار خون ریزی کو ناگزیر بنا رہا ہے۔
’’تمام اقتدار سوویتوں کو‘‘
ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کا مرکزی نعرہ تھا۔ لیکن بہت کم لوگوں نے اس نعرے کے حقیقی مواد کو سمجھا ہے۔ اس نعرے کا ٹھوس مطلب کیا تھا؟ خانہ جنگی؟ سرکشی؟ بالشویکوں کی جانب سے اقتدار پر قبضہ؟ نہیں، اس کا مطلب کچھ اور تھا۔ بالشویک سوویتوں میں اقلیت میں تھے جن پر ایس آر اور منشویکوں جیسی اصلاح پسند پارٹیوں کا قبضہ تھا۔ بنیادی مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ اکثریت کو جیتنا تھا جن کی اصلاح پسندوں کے متعلق خوش فہمیاں تھیں۔
بالشویکوں نے صبر کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی، جیسا کہ مارچ سے لے کر اکتوبر کی سرکشی تک لینن کی تحریروں اور تقریروں سے واضح ہے، کہ اصلاح پسند لیڈروں کو طاقت اپنے ہاتھوں میں لے لینی چاہیے، کہ اس سے سماج کی پرامن تبدیلی یقینی ہو جائے گی، کہ بالشویک اس کی مکمل طور پر حمایت کریں گے اور اگر اصلاح پسند قیادت اقتدار میں آجاتی ہے تو بالشویک اپنے آپ کو سوویتوں کے اندر اکثریت جیتنے کی پرامن جدوجہد تک محدود کر لیں گے۔
درج ذیل چند مثالیں ہیں کہ جو بتاتی ہیں کہ لینن نے اس سوال کو کیسے پیش کیا:
’’ایسا لگتا ہے کہ اس نعرے ’’تمام اقتدار سوویتوں کو‘‘ کے تمام حامیوں نے اس حقیقت پر مناسب غوروفکر نہیں کیا کہ یہ انقلاب کی پرامن پیش روی کا نعرہ تھا۔۔۔ پرامن صرف ان معنوں میں نہیں کہ کوئی بھی، نہ کوئی طبقہ اور نہ ہی کوئی طاقت 27فروری سے لے کر 4 جولائی تک سوویتوں کو اقتدار کی منتقلی کے راستے میں مزاحمت کرنے کے قابل تھی۔ صرف یہی نہیں۔ پرامن پیش روی کے ممکن ہونے کا یہ مطلب بھی ہے کہ سوویتوں میں طبقات اور پارٹیوں کی لڑائی ایک انتہائی پرامن اور غیر تکلیف دہ شکل اختیار کر جاتی بشرطیکہ مناسب وقت پر تمام ریاستی طاقت سوویتوں کو منتقل ہو چکی ہوتی۔‘‘ لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 25، صفحہ184)
’’میرا خیال ہے کہ بالشویکوں کی جانب سے کوئی اور شرط نہیں رکھی جائے گی، وہ سوویتوں کے اندر پارٹیوں کی جدوجہد کے پرامن نتیجے کے طور پر اس بات پر، پراعتماد ہوں گے کہ پروپیگنڈے کی مکمل آزادی اور سوویتوں میں (نئے الیکشنوں کی صورت میں) نئی جمہوریت کا فوری اظہار اور ان کا عمل بذات خود انقلاب کی پرامن پیش روی کو یقینی بنا دے گا۔‘‘
’’ہمارا فرض ہے کہ ہم انقلاب کی پرامن پیش روی کو یقینی بنانے کے لئے ’’آخری‘‘ امکان کے استعمال کو یقینی بنائیں، اپنا پروگرام پیش کرتے ہوئے، انقلاب کا عمومی، قومی کردار واضح کرتے ہوئے اور آبادی کی وسیع اکثریت کے مفادات اور مانگوں کے ساتھ اس کی مکمل مطابقت پر زور دیتے ہوئے۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 21، صفحہ نمبر 257)
’’اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے۔۔۔اور یہ غالباً ان کے پاس آخری موقع ہے۔۔۔سوویتیں ابھی بھی انقلاب کی پرامن پیش روی کو یقینی بناسکتی ہیں۔ عوام کی جانب سے نمائندوں کا پرامن انتخاب، سوویتوں کے اندر پارٹیوں کی پرامن جدوجہد، مختلف پارٹیوں کے پروگرام کا عمل میں آزمایا جانا، اور طاقت کی ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو پرامن منتقلی۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 21، صفحہ نمبر 263-264)
ٹراٹسکی ’’انقلاب رو س کی تاریخ‘‘ میں اس پوزیشن کو اس طرح سے سمیٹتا ہے:
’’سوویتوں کو اقتدار کی فوری منتقلی کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار مصالحت پسندوں کو مل جائے گا۔ یہ بورژوا حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے پرامن طریقے سے کیا جاسکتا تھاکیونکہ یہ حکومت ابھی تک صرف مصالحت پسندوں کی حمایت اور عوام میں اپنے اعتماد کی باقیات کے سہارے چل رہی تھی۔ محنت کشوں اور سپاہیوں کی آمریت 27 فروری سے ایک حقیقت بن چکی تھی۔ لیکن محنت کش اور سپاہی اس حقیقت کا مکمل ادراک نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے طاقت مصالحت پسندوں کے حوالے کردی تھی جنہوں نے آگے اسے بورژوازی کے سپرد کر دیاتھا۔ بالشویکوں کے انقلاب کی پرامن پیش روی کے متعلق اندازے اس امید پر قائم نہیں تھے کہ بورژوازی رضاکارانہ طور پر اقتدار محنت کشوں اور سپاہیوں کے سپرد کردے گی بلکہ اس امر پر کہ محنت کش اور سپاہی مصالحت پسندوں کو اقتدار بورژوازی کے سپرد کرنے سے بروقت روک دیں گے۔
ایک سوویت جمہوریت میں سوویتوں کے پاس تما م طاقت اور اختیارات کے مرتکز ہوجانے سے بالشویکوں کے لئے زبردست مواقع جنم لیتے، جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے پروگرام کی بنیاد پر سوویت میں اکثریت جیتتے ہوئے حکومت بنا سکتے تھے۔ ایسی صورت میں اس مقصد کے لئے مسلح سرکشی غیر ضروری ہو جاتی۔ پارٹیوں کے بیچ طاقت کا تبادلہ پرامن طریقے سے ہوسکتا تھا۔ اپریل سے جولائی تک پارٹی کی تمام تر کوشش سوویت کے ذریعے انقلاب کی پرامن پیش روی کو ممکن بنانے میں صرف ہوئیں۔ ’’صبر کے ساتھ وضاحت کرو‘‘۔۔۔یہ بالشویک پالیسی کی کنجی تھی۔‘‘ (ٹراٹسکی، انقلاب روس کی تاریخ، جلد دوم، صفحہ نمبر 312-313)
لیکن ہوسکتا ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی صرف دھوکے بازی کر رہے ہوں؟ شاید انہوں نے پرامن تبدیلی کی بات صرف محنت کشوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کی ہو؟ ایسا سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم بے خوف انقلابی دیانت داری پر مبنی لینن اور ٹراٹسکی کے طریقہ کار کے متعلق کچھ بھی نہیں سمجھ پائے۔ ڈیوی کمیشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے ٹراٹسکی نے نہایت واضح الفاظ میں کہا: ’’میرا یہ ماننا ہے کہ ایک مارکسسٹ، ایک انقلابی پالیسی عمومی طور پر ایک نہایت سادہ پالیسی ہوتی ہے: جو ہے وہ کہو! جھوٹ مت بولو! سچ بتاؤ! یہ ایک بہت سادہ پالیسی ہے۔‘‘ (ٹراٹسکی کامقدمہ، صفحہ نمبر 384)
بالشویک پارٹی کے دو الگ الگ پروگرام نہیں تھے، ایک پڑھی لکھی اقلیت کے لئے اور دوسرا ’’جاہل‘‘ مزدوروں کے لئے۔ لینن اور ٹراٹسکی نے ہمیشہ محنت کش طبقے کو سچ بتایا، چاہے یہ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو۔ اگر 1917ء میں انقلاب کے دوران، جب طاقت کا سوال کھل کر سامنے آیا، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پرامن تبدیلی ممکن ہے بشرطیکہ اصلاح پسند قیادت فیصلہ کن قدم اٹھائے، تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ واقعتاً ایسا ہی تھا۔ اگر سوویت قیادت فیصلہ کن قدم اٹھا لیتی تو انقلاب خانہ جنگی کے بغیر پرامن طریقے سے ہوجاتا، کیونکہ ان کے پاس سماج کی بھاری اکثریت موجود تھی۔ مزدوروں اور کسانوں کو یہ سادہ حقیقت بتاتے ہوئے، لینن اور ٹراٹسکی جھوٹ نہیں بول رہے تھے، اور نہ ہی ریاست کے مارکسی نظریے سے ہٹ رہے تھے، بلکہ صرف وہی کہہ رہے تھے جو مزدوروں اور کسانوں کی بھاری اکثریت کے لئے صاف ظاہر تھا۔
لینن جولائی تک اس پوزیشن پر قائم رہا لیکن پھر اس نے اسے تبدیل کردیا۔ کیوں؟ طاقت کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے انکاری منشویکوں اور ایس آر کی بزدلی کی وجہ سے رجعت کو سراٹھانے کا موقع مل گیا۔ رشین پاپولر فرنٹ (عبوری حکومت)کے پردے میں حکمران طبقہ منظم ہوکر اپنا انتقام لینے کی تیاری کر رہاتھا۔ اس کا نتیجہ ’’جولائی کے دنوں‘‘ کی رجعت کی صورت میں نکلا۔
جولائی حملوں کی بنیاد پر لینن نے یہ نتیجہ نکالا کہ ایک پرامن حل اب ناممکن ہے، خانہ جنگی ناگزیر ہوچکی ہے اور پارٹی کیلئے ضروری ہے کہ وہ سرکشی کو فوری طور پر سرفہرست لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ لینن غلطی پر تھا، جیسا کہ ٹراٹسکی نے ’انقلاب روس کی تاریخ‘ میں نشاندہی کی ہے۔ لینن نے، جو اس وقت فن لینڈ میں زیر زمین تھا، بعد میں تسلیم کیا کہ وہ حقائق سے کٹا ہوا تھا۔ اس کے پاس اس موقف کی وجہ، اس کا یہ خوف تھا کہ کامینیف، زینوویف اور سٹالن متزلزل ہوجائیں گے اور طاقت پر قبضے کی تیاری شروع نہیں کریں گے۔ اس میں وہ غلط نہیں تھا۔ یہ قانون ہے کہ، جیسے جیسے سرکشی کا وقت قریب آتا ہے، انقلابی پار ٹی کی قیادت پر اجنبی طبقات کا شدید دباؤ پڑتا ہے اور اس کا ایک حصہ متزلزل ہونے لگتا ہے۔
’’صبر کے ساتھ وضاحت کرو‘‘
ٹراٹسکی کی پوزیشن بلاشبہ درست تھی۔ وہ سرکشی کے وقت تک سوویتوں کو جیتنے کے لئے کام جاری رکھنے کی ضرورت کو سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس نے یہ تجویز بھی دی (لینن کی مخالفت کے باوجود) کہ سرکشی کو سوویتوں کی کانگریس (جہاں بالشویک اکثریت جیت لیں گے) کے ساتھ ملانے کیلئے اس (سرکشی)کی تاریخ کو ملتوی کردیا جائے۔ لہٰذا، سرکشی کے وقت بھی قانونی حیثیت کا سوال غیر اہم ہونے کی بجائے نہایت اہمیت اختیار کر جاتا ہے، خصوصاً عوام کی سب سے غیر متحرک پرتوں کو جیتنے کیلئے۔
اصلاح پسند قیادت کی باتوں اور عمل میں موجود تضاد کو سامنے لا کر بالشویکوں نے سوویت اور فوج میں فیصلہ کن اکثریت جیتنے کیلئے راہ ہموار کی۔ یہ وہ طریقہ تھا جس سے بالشویک پارٹی 1917ء میں سرکشی کے لئے تیار ہوئی، اس کے متعلق باتیں کر کے نہیں، بلکہ عوام اور اس کی تنظیموں میں لچکدار حکمت عملی اور نعروں کے ذریعے جگہ بناتے ہوئے۔ ایسی حکمت عملی اور نعرے جو صورتحال کے حقیقی تقاضوں سے مطابقت رکھتے تھے اور عوامی شعور کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، نہ کہ ایسی بے جان تجریدیں جنہیں کسی انقلابی کتاب سے رٹا لگا کر یاد کر لیا گیا ہو۔
جیسا کہ لینن اور ٹراٹسکی نے کئی مرتبہ وضاحت کی کہ روس میں فوری طور پر ایک پرامن انقلاب نہ ہوپانے کی واحد وجہ سوویتوں کی اصلاح پسند قیادت کی بزدلی اور غداری تھی۔
جب تک انقلابی پارٹی عوام کو جیت نہ لے، تب تک تشدد اور خانہ جنگی کے مبینہ طور پر ناگزیر ہونے پر زور دینا نہ صرف فضول بلکہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہ کبھی بھی ماضی کے عظیم مارکسی مفکرین کا طریقہ کار ہونے کی بجائے ہمیشہ مزدور تحریک سے باہر موجود بائیں بازو کے انتہا پسند فرقوں کا ایک خاصہ رہا ہے جن کی حقائق سے کٹی ہوئی ’’انقلابی‘‘ سپنوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے۔ حقیقت سے کٹی ہوئی اس دنیا میں یہ چھوٹے گروپ ’’سرکشی‘‘ اور ’’خانہ جنگی کی ناگزیریت‘‘ کے متعلق لامتناہی بحثیں کرنے میں وقت ضائع کرتے رہتے ہیں، اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے حقیقی فریضے سے مکمل طور پر بیگانہ ہوجاتے ہیں۔
ایک مارکسی رجحان اقتدار پر قبضے کے لئے ٹھوس تیاری کیسے کرتا ہے؟ عوام کو جیت کر۔ یہ سب کیسے کیا جاسکتا ہے؟ عبوری مانگوں کا ایک پروگرام تشکیل دیتے ہوئے، جو کہ سماج کی حقیقی صورتحال اور محنت کشوں، نوجوانوں کی معروضی ضروریات سے جنم لینے والی فوری مانگوں کو سرمایہ داری کے خاتمے اور سماج کی تبدیلی کے مرکزی خیال سے جوڑے۔ جیسا کہ لینن اور ٹراٹسکی نے کئی بار وضاحت کی کہ انقلاب کی تیاری کا 9/10 کام اس پر ہی مشتمل ہے۔ جب تک اس حقیقت کو نہیں سمجھا جاتا تب تک مسلح جدوجہد، فوجی تیاریوں اور خانہ جنگی کے متعلق تمام باتیں محض غیر ذمہ دارانہ ہیجان انگیزی ہیں۔
جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ جب تک بالشویک سوویتوں میں ایک محدود اقلیت میں تھے اور سوویتوں پر بورژوازی سے اتحاد میں مصروف منشویک اور ایس آر جیسی اصلاح پسند پارٹیوں کا مکمل غلبہ تھا، تب تک انہوں نے سرکشی کے متعلق گپ شپ کرنے کی بجائے سوویتوں میں اکثریت جیتنے کی ضرورت پر زور دیا (صبر کے ساتھ وضاحت کرو)۔ مزدور اور کسان اس وقت بھی آج کی طرح اصلاح پسند لیڈروں پر اعتماد کرتے تھے۔ بالشویکوں کو اس حقیقت کو نکتۂ آغاز کے طور پر لینا پڑا اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
جب تک وہ اقلیت میں تھے، لینن اور ٹراٹسکی نے مزدوروں اور سپاہیوں کو ریاست کے ساتھ ایک قبل ازوقت محاذ آرائی میں آنے سے روکنے کے لئے بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے پرامن احتجاج اور پروپیگنڈے پر زور دیا۔ مثلاً لینن نے جون میں مسلح مظاہروں کی مخالفت کی۔ اس کی وجہ سے لینن اور ٹراٹسکی کو ورکرز کے بعض حصوں کے غصے کا بھی سامنا کرنا پڑا جو کہ طبقے سے کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے تھے۔ ان پر مسلح سرکشی کے سوال کو سرفہرست نہ رکھنے کی وجہ سے موقع پرستی کا الزام بھی لگا۔
ایسی تنقید کے جواب میں وہ محض اپنے کندھے ہی اچکا سکتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سب سے اہم اور فوری فریضہ مزدوروں اور سپاہوں کی اکثریت کو جیتنا تھا جو کہ ابھی تک منشویکوں اور ایس آر کے زیر اثر تھے۔ ماہرانہ اور لچکدار حکمت عملی کی بدولت بالشویک اکتوبر سے پہلے سوویتوں میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ اور صرف یہ ہی اکتوبر کی سرکشی کے نسبتاً پرامن کردار کی وضاحت کرتا ہے۔ وجہ بنیادی طور پر فوجی نہیں تھی، بلکہ یہ تھی کہ کام کا 9/10 پہلے ہی مکمل کر لیا گیا تھا۔
کیا اکتوبر انقلاب پرامن تھا؟
کیا انقلاب کا پرتشدد ہونا لازمی ہوتا ہے؟ ایک فرقہ پرور ذہن کے لئے اس کا جواب ہمیشہ ہاں میں ہوتا ہے۔ مارکسسٹ اسی سوال کو بحیثیت کل دیکھتے ہوئے تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہیں: طبقاتی قوتوں کا توازن، محنت کش طبقے کی قیادت کا کردار، پروگرام اورحکمت عملی کا چناؤ وغیرہ۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ 1917ء میں ایک نہیں بلکہ دو انقلاب ہوئے تھے جن کے درمیان جولائی سے ستمبر تک کا رجعتی عرصہ موجود تھا اور اکتوبر انقلاب کے بعد ایک رجعتی فوجی جارحیت اور چار سالہ خانہ جنگی بھی ہوئی جس میں اکیس ممالک کی افواج نے روس پر حملہ کردیا اور نتیجتاً لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔لہٰذا یہ ایک سیدھے سادھے ’’فاتحانہ جلوس‘‘ کا نہیں بلکہ انقلاب اور ردِ انقلاب کا دور تھا۔ جو کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھتا اسے بجا طو رپر ایک احمق کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ اکتوبر انقلاب پرامن تھا(جتنا کہ کوئی انقلاب پرامن ہوسکتا ہے) آئی ایم ٹی نے نہیں بلکہ بذات خود لینن اور ٹراٹسکی نے کیا تھا۔ یہاں پر ہم چند مثالیں دینا پسند کریں گے۔پہلے فروری انقلاب کے بارے میں:
’’یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ فروری انقلاب پیٹروگراڈ نے کیا اور باقی تمام ملک نے اس کی پیروی کی۔ پیٹروگراڈ کے علاوہ اور کہیں لڑائی نہیں ہوئی۔ پورے ملک میں کہیں بھی آبادی کے ایسے حصے، ایسی پارٹیاں، ادارے یا فوجی یونٹ نہیں تھے جو کہ پرانی حکومت کیلئے لڑنے کو تیار ہوں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بعد میں رجعتی عناصر کی طر ف سے کی جانے والی اس قسم کی گفتگو کس قدر فضول تھی کہ بادشاہت کا مقدر مختلف ہوسکتا تھا اگر پیٹرزبرگ گیریژن میں گارڈز کے گھڑ سوار دستے موجود ہوتے یا پھر آئیوانوف اگلے مورچوں سے ایک قابل اعتماد برگیڈ کو بلا لیتا۔ نہ اگلے اور نہ ہی پچھلے مورچوں میں کوئی ایسی برگیڈ یا رجمنٹ موجود تھی جو کہ نکولس دوم کی خاطر لڑنے کو تیار ہو۔‘‘(ٹراٹسکی، انقلاب روس کی تاریخ، صفحہ نمبر 158)
اور اکتوبر انقلاب؟ اپنی کتاب میں ٹراٹسکی تفصیلی ذکر کرتا ہے کہ پیٹروگراڈ پر کتنی آسانی سے قبضہ کرلیا گیا۔ انقلاب کے پرامن ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ٹراٹسکی کی سربراہی میں بالشویک پہلے ہی پیٹروگراڈ گیریژن کو جیت چکے تھے۔ ٹراٹسکی دارالحکومت کی فتح کے متعلق باب میں بتاتا ہے کہ ورکرز نے پیٹراینڈ پال قلعے کا کنٹرول کیسے سنبھالا:
’’قلعے کی گیریژن کے تمام سپاہیوں نے کمانڈر کی گرفتاری پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا لیکن سائیکل سوار سپاہی کھل کر اپنی رائے دینے سے پہلو تہی کر رہے تھے۔ ان کی خاموشی کے پیچھے کیا وجہ تھی: ڈھکی چھپی مخالفت یا تذبذب کی آخری کیفیت؟ بلاگونراف لکھتا ہے کہ، ’ہم نے سائیکل سوار سپاہیوں کی ایک خصوصی میٹنگ بلانے اور اس میں اپنے بہترین لوگوں اور خصوصاً ٹراٹسکی کو بلانے کا فیصلہ کیا، جو کہ سپاہیوں میں بے تحاشا اثرورسوخ رکھتا تھا۔‘ دوپہر کے چار بجے پوری بٹالین پڑوس کی عمارت میں اکٹھی ہوئی۔ حکومت کی جانب سے کوارٹر ماسٹر جنرل پوودیلوف، جسے ایس آر سمجھا جاتا تھا، بولنے کے لئے آیا۔ اس کے اعتراض انتہائی محتاط ہونے کی وجہ سے نہایت مبہم تھے اور کمیٹی کے نمائندوں کا حملہ اتنا ہی تباہ کن تھا۔ پیٹر اینڈ پال قلعے کیلئے ہونے والی اس خطیبانہ جنگ کا خاتمہ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ہونا چاہیے تھا: تیس کے علاوہ بٹالین کے باقی تمام سپاہیوں نے ٹراٹسکی کی قرارداد کی حمایت کی۔ خونریزی کے امکانات رکھنے والا ایک اور معاملہ لڑائی اور خون بہائے بغیر طے ہوگیا۔ یہ اکتوبر کی سرکشی تھی۔ یہی اس کا انداز تھا۔‘‘ (ٹراٹسکی، انقلاب روس کی تاریخ، صفحہ نمبر 211-12)
ماسکو میں سوویت اقتدار قائم کرنے میں تھوڑا زیادہ وقت لگا جس کی بنیادی وجہ مقامی بالشویکوں کی غلطیاں تھیں۔ لیکن ٹراٹسکی نے بار بار اس امر پر زور دیا کہ بالشویک انقلاب عمومی طور پر پرامن تھا جب تک کہ بیرونی طاقتوں نے اسے کچلنے کی خاطر روس میں مداخلت نہیں کی تھی۔
بائیں بازو کی انتہا پسندانہ پالیسیاں
1941ء کے مینیا پولس مقدمے میں کینن نے پیٹروگراڈ میں ہونے والی سرکشی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’بس تھوڑی بہت معمولی لڑائی ہوئی۔‘‘ اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے بعد میں بائیں بازو کے انتہا پسند گراندیزو مونیس نے مقدمے میں اختیار کی گئی پالیسی کو ’’موقع پرستی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ SWP کو کھلم کھلا تشدد اور خانہ جنگی کی حمایت کرنی چاہیے۔ درحقیقت کم ازکم اس موقع پر SWP کی قیادت کی جانب سے لی گئی پوزیشن ماضی میں ٹراٹسکی کی طرف سے دیے گئے مشورے کے عین مطابق تھی۔
’’کینن نے کہا: اس معاملے میں ہمارا فارمولا وہی ہے جو مارکسی اساتذہ کا فارمولا تھا۔ وہ نہ صرف سماج کی پرامن تبدیلی کے بارے میں خواہشمند تھے بلکہ مخصوص غیرمعمولی حالات میں ایسے پرامن انقلاب کا ہونا ممکن بھی سمجھتے تھے۔ اگرچہ ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایسے کسی بھی تناظر کو رد کیا ہے لیکن ساتھ میں اس کے لئے اپنی ترجیح کا اعلان کرتے ہوئے کسی بھی تشدد کا ذمہ دار حکمران بورژوازی کو ٹھہرایا ہے۔ اس میں ہم مارکسی نظریے اور روایت کے ساتھ مکمل طور پر وفادار رہے ہیں۔‘‘ (مونیس اور کینن، انقلابیوں کے لئے کون سی پالیسی۔۔۔مارکسزم یا بائیں بازو کی انتہا پسندی، صفحہ نمبر 36)
درج بالا صورتحال میں مونیس کی الٹرا لیفٹ پالیسیاں نہ صرف ٹراٹسکائیٹوں کو امریکی محنت کش طبقے سے کاٹ دیتیں بلکہ ان کا نتیجہ پارٹی کی مکمل تباہی کی صورت میں نکلتا(پارٹی بعد میں قیادت کی غلط پالیسیوں کے باعث تباہ ہوگئی لیکن اس کا تجزیہ ہم نے کہیں اور کیا ہوا ہے)۔ انقلابِ روس کے حوالے سے لینن اور ٹراٹسکی کی جانب سے دیے جانے والے تمام دلائل آج پہلے کی نسبت کئی سو گنا زیادہ درست ہیں۔ طبقاتی قوتوں کا توازن، خصوصاً ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں، غیر معمولی طور پر پرولتاریہ کے حق میں ہے۔ اگر سوشل ڈیموکریٹس اور سٹالنسٹوں کی غداریاں نہ ہوتیں تو پچھلی سات دہائیوں کے دوران فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال، برطانیہ اور جرمنی میں محنت کش طبقہ کئی مرتبہ اقتدار پر قبضہ کر چکا ہوتا۔
تشدد پر ٹراٹسکی کی پوزیشن
یہ دعویٰ کہ ایک طاقتور عوامی تحریک مخصوص حالات میں خانہ جنگی کے بغیر اقتدار کی پرامن منتقلی کا باعث بن سکتی ہے، آئی ایم ٹی کی اختراع نہیں ہے۔ ڈیوی کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے ٹراٹسکی سے پوچھا گیا کہ کیا سوویت یونین میں سٹالنسٹ حکمران پرت کے خلاف سیاسی انقلاب ناگزیر طور پر خون ریز ہوگا۔ ہم نیچے اس کا مکمل جواب چھاپ رہے ہیں:
’’فائنرٹی: دوسرے الفاظ میں آپ یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ بیوروکریسی کے خلاف سیاسی انقلاب اور اس کی اقتدار سے بے دخلی کے دوران، ایک دفاعی اقدام کے طور پر بھی، بیوروکریسی کا جسمانی خاتمہ ناگزیر ہوگا؟
ٹراٹسکی: مجھے یقین ہے کہ سیاسی انقلاب کے وقت روس میں عوام کی اتنی طاقتور بغاوت ہوگی کہ بیوروکریسی فوری طور پر اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے گی اور ابتری کا شکار ہو جائے گی، بالکل ویسے ہی جیسے فروری انقلاب میں زار شاہی ہوئی تھی۔
فائنرٹی: تو مسٹر ٹراٹسکی، بیوروکریسی کے خلاف انفرادی یا اجتماعی دہشت گردی کا استعمال آپ کے فلسفے کا حصہ نہیں ہے؟
ٹراٹسکی: اجتماعی دہشت گردی کامعاملہ بیوروکریسی کی اپنی کیفیت پر منحصر ہے۔ میں دہراؤں گاکہ مجھے امید ہے کہ فیصلہ کن لمحات میں یہ طاقتور اور خوفناک بیوروکریسی انتہائی قابل رحم ثابت ہوگی اور یہ انقلاب فروری یا اکتوبر انقلاب سے بھی زیادہ پرامن ہوسکتا ہے۔ لیکن میں اس کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ اگر بیوروکریسی عوام کی مخالفت کرے گی تو وہ قدرتی طور پر سخت اقدامات کریں گے۔ لیکن انفرادی قتل و غارت، نہیں، یہ انقلابی طریقہ کار نہیں ہے۔
فائنرٹی: اور سیاسی ضرورت بھی نہیں ہے؟
ٹراٹسکی: ہرگز نہیں۔‘‘ (لیون ٹراٹسکی کا مقدمہ، صفحہ نمبر 7-376)
ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم ایک ایسی خوفناک اور جابر آمریت کے متعلق بات کر رہے ہیں جس کی بنیاد ہی تمام حقوق کی سلبی پر تھی۔ ایک حکومت جس کا طریقہ کار قتل، تشدد اور نظربندی کیمپ تھے۔ اس سب کے باوجود ٹراٹسکی نے ایک اتنی طاقتور انقلابی تحریک کا تناظر پیش کیا جو بیوروکریسی کو بالکل مفلوج کرکے رکھ دے گی۔
کیا یہ سب ٹراٹسکی کی خام خیالی تھی؟ اس کے برعکس صرف یہ دیکھیں کہ 1989ء میں مشرقی یورپ میں کیا ہوا تھا۔ مشرقی جرمنی، پولینڈ اور چیکوسلوواکیہ میں سٹالنسٹ حکومتوں کے خلاف چلنے والی عوامی تحریکوں نے پست حوصلہ بیوروکریسی کو ایسے جھنجھوڑا کہ وہ اپنے ہاتھوں میں تباہی پھیلانے کے خوفناک ذرائع رکھنے کے باوجود تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ یہ درست ہے کہ موضوعی عنصر کی غیر موجودگی میں بیوروکریسی کے انہدام کا نتیجہ سرمایہ داری کی طرف واپسی کی صورت میں نکلا ہے، لیکن اس سے دلیل غلط نہیں ہو جاتی۔ ٹراٹسکی نے طویل عرصہ پہلے وضاحت کی تھی کہ انقلاب اور ردانقلاب کے قوانین ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ایک سماجی تشکیل کی دوسری میں تبدیلی خانہ جنگی کے بغیر پرامن طریقے سے ہوگئی۔ فیصلہ کن وقت پر بیوروکریسی نے ایک گولی چلائے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔
ذرا ٹھوس طریقے سے دیکھتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ روس اور مشرقی یورپ میں آمرانہ ریاست غالباً تاریخ میں جبر کا سب سے طاقتور اپریٹس تھا۔ یہ بظاہر ناقابل تسخیر نظر آتا تھا۔ حتیٰ کہ بورژوازی بھی اس کو ’’گرینائٹ سے بنا‘‘ کہتی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ صدیوں تک قائم رہے گا (اپنے آخری لمحات تک سٹالنسٹ بیوروکریسی بھی اسی خوش فہمی کا شکار تھی)۔ پولیس، خفیہ اداروں اور فوج کی طاقت پر اوہام پرستانہ اعتقاد رکھنا تباہی کی جانب گامزن حکمران طبقے کا خاصہ ہوتا ہے۔ لیکن مارکسسٹ اپنے تجزیے کا آغاز حقیقی سماجی رشتوں سے کرتے ہیں نہ کہ پولیس، جاسوسوں، تنخواہ دار فوجیوں کی تعداد اور بمبار طیاروں و دیگر تباہی پھیلانے والے ذرائع کی موجودگی سے ( یہ ایک بہت پرانی دلیل ہے جو کہ اگر درست ہوتی تو تاریخ میں کبھی کوئی انقلاب نہ آتا)۔
تباہی کے تمام تکنیکی ذرائع بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھے اور کم از کم کاغذوں میں بے شمار پولیس والے اور فوجی بھی۔ لیکن فیصلہ کن لمحات میں یہ سب کسی کام نہیں آیا۔ بائبل کے مطابق جب یشوع کے حکم پر زور سے بگل بجائے گئے تو یروشلم کی فصیلیں دھڑام سے نیچے گر گئیں۔ سٹالنسٹ حکومتیں تو ایسے کسی ساز کے بغیر ہی منہدم ہوگئیں۔ آخر حکمرانوں نے بمبار طیاروں کو، ٹینکوں کو یا جبر کے کسی اور ذرائع کو استعمال کیوں نہیں کیا؟ ایک سادہ حکم اس معاملے میں کافی ہوتا۔ یہ حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ کیونکہ عوامی تحریک سے بیوروکریسی مکمل طور پر حوصلہ ہار چکی تھی اور مفلوج ہو چکی تھی۔ 1968ء میں ڈیگال کی طرح انہیں احساس ہو چکا تھا کہ کھیل ختم ہوچکا ہے اور مزاحمت کرنا بیکار ہوگا۔
بیوروکریسی کے مفلوج ہو جانے کی وضاحت کیسے کی جائے؟ ان کی بدحوصلگی نظام کے بحران کا نتیجہ تھی جو کہ ذرائع پیداوار کو ترقی دینے سے قاصر تھا۔ ہم نے 1932ء میں ہی سٹالنزم کے انہدام کی پیش گوئی کردی تھی کیونکہ بیوروکریسی ذرائع پیداوار کو مزید ترقی نہیں دے پا رہی تھی اور نتیجتاً ایک نسبتاً ترقی پسند قوت سے سماج کے پیروں کی زنجیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔ یہی سب کچھ اب بورژوازی کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔ انقلابی تبدیلی کے راستے کی رکاوٹ بورژوازی اور اس کی ریاست کی طاقت نہیں بلکہ محنت کش طبقے پر چھایا وقتی جمود ہے ، جو کہ آہستہ آہستہ سماجی بحران کی گہرائی کا ادراک حاصل کررہا ہے۔
آنے والے طوفانی عہد میں، ایک کے بعد دوسرے ملک میں انقلابی مواقع جنم لیں گے۔ 1968ء کے واقعات پہلے سے کہیں بلند تر سطح پر دہرائے جائیں گے۔ مغرب میں بورژوازی کے پاس ایک طاقتور ریاست ہے لیکن یہ بہت سارے حوالوں سے 1989ء میں مشرقی یورپ کی مطلق العنان ریاستوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ لینن نے وضاحت کی تھی کہ ہر حقیقی انقلاب ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتا ہے جب حکمران طبقہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پرانی ڈگر پر حکمرانی کرنے سے اپنے آپ کو قاصر محسوس کرتا ہے۔ درمیانہ طبقہ شدید ہیجان کا شکار ہوکر بورژوزی اور پرولتاریہ کے بیچ جھولنے لگتا ہے۔ محنت کش طبقہ سماج کو بدلنے کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہوچکا ہوتا ہے اور ایک تجربہ کار اور دوراندیش قیادت رکھنے والی مضبوط انقلابی پارٹی موجود ہوتی ہے۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – مارکسزم اور ریاست (دوسرا اور آخری حصہ)