(29 مئی1923 ء)
جواب۔ ڈیئر کامریڈز!
آپ لوگوں نے شکایت کی ہے کہ آپ اپنی دلچسپی کی دس فیصد کتابیں بھی نہیں پڑھ پائے اور پوچھا ہے کہ اس کیلئے مناسب نظام الاوقات کیسے ترتیب دیا جائے۔یہ ایک بہت مشکل سوال ہے کیونکہ اس کا فیصلہ بالآخر ہر شخص نے اپنی مخصوص ضروریات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کرنا ہوتا ہے۔تاہم یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص کس حد تک موجودہ ادب کے سلسلے میں باخبر رہ سکتا ہے‘خواہ وہ سائنسی ہو سیاسی ہو یا کوئی اور‘اس کا دارومدارصرف وقت کی مناسب تقسیم پر ہی نہیں بلکہ اس فرد کی سابقہ تربیت پر بھی ہوتا ہے۔
جہاں تک’’پارٹی یوتھ‘‘ کی طرف آپ کے خصوصی حوالے کا تعلق ہے تو میں صرف یہ مشورہ دوں گا کہ جلد بازی سے کام نہ لیں اور خود کو زیادہ نہ پھیلائیں‘ ایک موضوع کو چھوڑ کردوسرے کی طرف نہ بھاگیں اور کوئی دوسری کتاب اس وقت نہ شروع کریں جب تک آپ پہلی کتاب کو پڑھ کر غورو فکر کرنے کے بعد اس پر مکمل عبور حاصل نہ کر لیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں خود نوجوان تھا تو میں بھی محسوس کرتا تھاکہ میرے پاس کافی وقت نہیں۔ یہاں تک کہ جب میں جیل میں تھااس وقت بھی مجھے احساس ہوتا تھاکہ دن بھر میں میں جو پڑھ پاتا ہوں وہ کافی نہیں ہے۔معاشی شعبے کی طرح نظریاتی شعبے میں بھی سب سے زیادہ مشکل اور وقت طلب مرحلہ ابتدائی سرمائے کا ارتکاز ہوتا ہے۔ صرف علم کے بعض عناصر بالخصوص نظری مہارت(طریقہ کار)کے عناصر پر مکمل دسترس حاصل کرکے انہیں اپنی فکری سرگرمیوں کا لازمی جزو بنانے کے بعد ہی آپ نہ صرف اس شعبے کے ادب کو سمجھ سکتے ہیں جس سے آپ شناساہیں بلکہ علم کے ان شعبوں کو بھی جو اس سے مختلف ہیں کیونکہ آخری تجزیے میں طریقہ کار ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
بہتر ہے کہ ایک کتاب پڑھی جائے۔ بہتر ہے کہ ایک وقت میں چھوٹی سی بات پر عبور حاصل کیا جائے لیکن مکمل طورپر کیا جائے۔صرف اسی طرح سے سمجھ بوجھ کی دماغی صلاحتیں خود کو فطری اندازمیں فروغ دے سکتی ہیں۔ فکر بتدریج خود اعتمادی حاصل کرے گی اور پھلے پھولے گی۔ان ابتدائی باتوں کو ذہن میں رکھ کر آپ باآسانی اپنے لئے ایک نظام الاوقات وضع کر سکیں گے۔ اور پھر ایک سے دوسری دلچسپی کی طرف عبور آپ کو ایک خاص قسم کا لطف دے گا۔