جواب۔ پرانی مادہ پرستی غیر مکمل ‘غیر مستقل مزاج اور یک طرفہ ہے اور اس سماج کی سائنس کو مادی بنیادوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور پھر ان پر اس سائنس کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے چونکہ مادہ پرستی کے نقطہ نظر سے شعور کو ذات کا اظہار قرار دیا جاتا ہے نہ کہ اس سے الٹ۔اس لئے جب ہم مادہ پرستی کے نقطہ کا اطلاق انسانوں کی سماجی زندگی پر کرتے ہیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سماجی شعور سماجی ہستی کا نتیجہ یا اظہار ہے۔ انسان فطرت کے ساتھ کس انداز سے نبردآزما ہے یعنی پیداوار کا وہ عمل جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھتا ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس کے سماجی تعلقات کی تشکیل کس طرح سے ہوتی ہے اور ان کے نتیجے میں کس قسم کے ذہنی تصورات و افکار جنم لیتے ہیں۔انسانی سماج اور اس کی تاریخ پر مادی نقطہ نظر کے بنیادی اصولوں کے اطلاق کو بہت جامع انداز میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ:
’’اپنی زندگیوں کی سماجی پیداوار کے دوران افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایسے رشتوں میں بندھ جاتے ہیں جو ناگزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشات کے تابع بھی نہیں ہوتے ۔ یعنی وہ پیداواری رشتے جو مادی پیداوار ی قوتوں کی ترقی کی اس مخصوص سطح سے میل کھاتے ہیں‘‘۔
’’سماج کا معاشی ڈھانچہ انہی پیداواری رشتوں کے حاصل جمع پر مشتمل ہوتا ہے یہی وہ حقیقی بنیاد ہے جس پر ایک قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ کھڑا ہوتاہے اور سماجی شعور کی مخصوص ہیئتیں بھی اسی سے مطابقت رکھتی ہیں۔مادی زندگی کی پیداوار کا طریقہ ہی سماجی‘سیاسی اور فکری زندگی کے عمل کا تعین کرتا ہے۔‘‘
تاریخ کے مادی تصور کی دریافت کے باعث یا زیادہ وضاحت کے ساتھ کہا جائے تو مادیت ( فلسفیانہ مادیت) کے سماجی مظاہرے کے دائرے تک تسلسل کے ساتھ وسعت اختیار کر جانے کی وجہ سے پہلے سے رائج تاریخ سے متعلق تھیوریوں میں موجود دو بڑے نقائص کا خاتمہ ہو گیا۔ اول یہکہ وہ زیادہ سے زیادہ محض انسانوں کی تاریخی سرگرمیوں کے نظریاتی محرکات کا احاطہ کرتی تھیں لیکن ان محرکات کی بنیادوں کے سلسلے میں کوئی تحقیق نہیں کرتی تھیں‘ نہ ہی وہ سماجی رشتوں کے نظام کے ارتقاء میں کارفرما معروضی قوانین کا تعین کرتی تھیں اور نہ ہی وہ اس بات کو مدنظر رکھتی تھیں کہ ان رشتوں کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ مادی پیداوار کی ترقی کی سطح کیا ہے۔ دوم‘یہ ابتدائی تھیوریاں آبادی کی اکثریت پر مشتمل عوام کی سرگرمیوں کا احاطہ نہیں کرتی تھیں۔ جب کے تاریخی مادیت کے ذریعے عوامی زندگی کے سماجی حالات اور ان میں تبدیلی کا سائنسی درست مطالعہ پہلی بار ممکن ہو ا۔
مارکسزم سے پہلے کی سوشیالوجی اور تاریخ نویسی ادھر ادھر سے جمع کردہ خام حقائق کا مجموعہ اور تاریخی عمل کے انفرادی پہلوؤں کی منظر کشی سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔مختلف رجحانات کا بحیثیت مجموعی جائزہ لینے کے بعدانہیں تاریخی عمل کے انفرادی پہلوؤں میں سرگرم عمل مختلف طبقات کی پیداوار اور حالات زندگی کی انتہائی درست تعریفوں میں لیا گیا۔اسی مخصوص ’’غالب‘‘تصور یا اس کی تشریح کے انتخاب کا جائزہ لینے کے بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا کہ تمام تصورات وافکار اور مختلف رجحانات پیداوار کی مادی قوتوں کے حالات سے جنم لیتے ہیں۔یوں مارکس ازم نے سماجی اورمعاشی نظاموں کے ظہور ‘عروج اور زوال کے عمل کے جامع مطالعہ کیلئے راستہ ہموار کر دیا۔لوگ اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن لوگوں کے‘عوام کی اکثریت کے متحرکات کا تعین کون سی چیز کرتی ہے یعنی انسانی سماجوں میں جاری ان تمام تصادموں کا حاصل جمع کیا ہے؟انسان کی تمام تر تاریخی سرگرمی کی بنیاد بننے والے مادی زندگی کی پیداوار کے معروضی حالات و شرائط کیا ہیں؟ ان حالات کے ارتقاء کا قانون کیا ہے؟مارکس نے ان تمام باتوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے تاریخ کے سائنسی مطالعہ کا راستہ دکھایا جس کی روح سے تمام تر تنوع اور تضادات کے باوجود یہ ایک ہی عمل ہے اور مخصوص قوانین کے تابع ہے۔