جواب۔ جدید پیداوار کی نوعیت پہلے ہی سماجی ہے۔ مثال کے طورپر کوئی بھی تنہا آدمی تمام کی تمام کاریا سارا کمپیوٹر نہیں بنا سکتا۔جدید معیشت اس قدر پیچیدہ ہے کہ کمپیوٹر جیسی چیز بنانے کیلئے دنیا بھرمیں لاکھوں افراد کی کاوشوں کی ضرورت ہوتی ہے‘خام مال مہیا کرنے والوں سے لیکر ہارڈویئر ڈیزائن کرنے والوں تک اور اسے اسمبل کرنے والوں سے لیکر آپ کے گھر کے دروازے تک پہنچانے والوں تک۔ یہ ایک اجتماعی عمل ہے۔ تاہم ان تمام محنت کشوں کی تخلیق کردہ دولت برابر تقسیم نہیں ہوتی۔ارب پتی سرمایہ دار اور بڑی بڑی کارپوریشنیں اس کا بہت بڑا حصہ خود ہضم کر جاتی ہیں۔ یہ جدیدمحنت کش طبقہ ہی ہے جو روزمرہ بنیادوں پر فیکٹریاں اور کاروبار چلاتا ہے۔
محنت کش ہی اجتماعی طورپر سماج کی دولت کی تخلیق کرتے ہیں۔ تاہم انہیں اپنی کاوشوں کا حقیقی صلہ نہیں ملتا۔یہ درست ہے کہ انہیں اجرتوں میں اضافے اور بونسوں کی شکل میں کچھ بچے کچے ٹکڑے مل جاتے ہیں لیکن سرمایہ دار خود جو’بونس‘ کھاتے ہیں اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ (مثال کے طورپر امیر صنعتی ممالک میں بڑی کارپوریشنوں کے عہدیداروں کو کئی کئی لاکھ ڈالر کرسمس کے تحفے کے طورپر ملنا معمول کی بات ہے)۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دولت کو ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے جو درحقیقت اس دولت کو تخلیق کرتے ہیں۔