جواب۔ غلام ایک ہی مرتبہ اور ہمیشہ کیلئے فروخت کر دیا جاتا تھا۔پرولتاریہ بھی اپنے آپ کو بیچتا ہے مگر دنوں یا گھنٹوں کے حساب سے۔ غلام اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے۔ جو ساری زندگی اس کے پاس رہتا ہے اس کی حالت زندگی کتنی بھی خراب کیوں نہ ہو اس کی بقاء یقینی ہوتی ہے‘ کیونکہ اس کے آقا کا مفاد اسی میں ہوتا ہے۔پرولتاریہ کو اپنی زندگی اور بقاء کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ روزگار سمیت غذا‘ تعلیم اورصحت کا تحفظ نہیں ہوتا۔سرمایہ دار جب چاہے اسے روزگار سے نکال سکتا ہے۔ اور اس کے گھر فاقوں کی نوبت آ سکتی ہے۔ بقاء کی ضمانت صرف مجموعی طورپر پورے محنت کش طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔ غلام ہمیشہ مقابلے بازی سے باہر رہتا ہے۔ جبکہ پرولتاریہ مقابلے بازی کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوتا ہے اور اس سے منسوب تمام ذلتوں کا شکار بھی ہوتاہے۔ غلام کی شکل سماج میں ایک شے کی مانند ہوتی ہے نہ کہ انسان کی۔ جبکہ پرولتاریہ ایک تسلیم شدہ سماجی فرد ہوتا ہے اور ایک معاشرے کارکن بھی۔غلام کو پرولتاریہ کی نسبت بقاء کی بہتر ضمانت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی ذمہ داری اس کے آقا پر ہوتی ہے۔جبکہ پرولتاریہ سماجینشوونما میں اعلیٰ مرحلے سے تعلق رکھنے کے باوجودروزگار سمیت دوسری بنیادی ضرورتوں کے عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے۔ غلام اسی وقت اپنے آپ کو آزاد کرا سکتا ہے جب نجی ملکیت کے رشتوں میں محض غلامی کے رشتے کو مٹایا جائے۔ تب وہ پرولتاریہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پرولتاریہ اپنے آپ کو صرف اسی وقت اور صرف اسی صورت میں آزاد کراتا ہے جب وہ کلی طورپرذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہی کو ختم کرتا ہے۔