جواب۔ محنت کش عوام تمام پیداواری قوتوں‘ تجارت کے ذرائع اور اشیاء کی تقسیم اور تبادلے کے متعلق تمام امور کو انفرادی ہاتھوں سے اپنی مشترکہ ملکیت میں لے لیں گے اور پورے معاشرے کی ضروریات اور دستیاب وسائل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے تحت انتظامات کریں گے۔اس طریقے میں سب سے اہم پیش رفت یہ ہو گی کہ موجودہ وسیع پیمانے پر چلنے والی صنعت جو انفرادی ملکیت کی وجہ سے منفی نتائج کاباعث ہے کا مکمل خاتمہ ہو جائیگااور پھر بحران نہیں آئیں گے۔ فاضل پیداوار اور جوموجودہ نظام کے اندر زائد پیداوارگردانی جاتی ہے اور اس کے باعث اقتصادی بدحالی اور بحران جنم لیتا ہے۔ یہ فاضل پیداوار بے کار اور بے معنی نہیں ہوگی بلکہ اسے مزید وسعت دی جائے گی۔ فاضل پیداوار بحران اور بدحالی کا باعث بننے کی بجائے معاشرے کے ہرفرد کی ضروریات کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی اور نئے ذرائع پیداوار تخلیق کرنے کا باعث بھی ہوگی اس کی وجہ سے ترقی کے نئے ادوار شروع ہونگے جو بغیر کسی تغیر یا وقفے کے جاری و ساری رہیں گے۔ مگر یہ سارا عمل موجودہ(سرمایہ دارانہ)سماجی نظام کو منہدم کرنے سے ہی ممکن ہوگا۔
وسیع پیمانے پر صنعت سازی نجی ملکیت کے دباؤ سے آزاد ہو جائے گی اس میں اسی پیمانے کی وسعت آئے گی جیسی گھریلو دستکاری کے مقابلے میں جدید صنعت میں آئی تھی۔ صنعت میں اس نوع کی ترقی اور پیش رفت کی وجہ سے معاشرے کے ہر فرد کی تمام ضروریات باآسانی پوری ہونگی۔ اسی طرح زراعت جو کہ نجی ملکیت اور زمین کے ٹکریوں میں تقسیم ہونے کے باعث زیادہ سود مند نہیں ہے اس دباؤ سے آزاد ہو جائے گی۔سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پرکی جانے والی اصلاحات عوام کی ضروریات پورا کرنے کی ضامن ہونگی۔ یوں اشیاء اتنی وافر مقدار میں پیدا ہونگی کہ معاشرے کے ہر فرد کی تمام ضرورتوں یعنی مانگوں کا خاتمہ ہو جائیگا۔طبقات کاوجود مٹ جائے گا۔ یہ مخاصمانہ کیفیت غیر ضروری ہو گی اور نئے سماجی نظام میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہو گی۔
طبقات کا وجود محنت کی تقسیم کے نتیجے میں ہوا۔محنت کی تقسیم جو اس وقت موجود ہے مکمل طور پر ختم کی جائے گی۔صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے حامل کیمیائی و میکانکی آلات پیداوار صنعتی و زرعی پیداوار کو اس سطح تک بڑھانے کیلئے کافی نہیں جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔بلکہ ان آلات پیداوار کوپوری طرح استعمال میں لانے میں عوام کی صلاحیت ترقی میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ جس طرح 18 ویں صدی کے کسانوں‘ دستکاروں‘ہنرمندوں اور مینوفیکچرز کی حالت صنعتی انقلاب کے باعث مکمل طورپر بدل گئی اسی طرح سماج میں اشتراکی طریقہ پیداوار ایک بالکل مختلف انسان کو جنم دے گا۔ موجودہ طبقات مٹ جائیں گے۔ غیر طبقاتی معاشرہ جنم لے گااور معاشرے میں مشترکہ پیداواری عمل ترقی میں اضافے کا باعث ہوگا۔ پیداواری عمل میں جدت کیلئے نئے عوامل اور وسائل کی ضرورت ہو گی۔ مشترکہ پیداواری عمل محض چند افراد تک ہی نہیں محدود ہوگا جیسے آج کل بورژوا نظام میں ہے۔ جہاں آج ہر فرد انفرادی طورپر پیداوار کے کسی ایک شعبے تک محدود ہے۔ اسے محض ایک محدود عمل تک محدود کر کے اس کا استحصال کیا جاتا ہے وہ سارے پیداواری عمل میں محض اپنی کسی ایک صلاحیت کو فروغ دینے پر مجبور ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک پیداواری شعبے کے محض کسی ایک حصے تک محدود ہوتا ہے۔ گویا صنعت سازی کا عمل سرمایہ دارانہ نظام میں فرد کو کم سے کم مفید بناتا ہے۔
کمیونل(مشترکہ) منصوبہ بند صنعت و معیشت پورے معاشرے کے باہمی اشتراک سے چلتی ہے وہ بنی نوع انسان کے ہر فرد کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے اور پیداواری عمل کو ترقی دینے کی صلاحیت اور گنجائش کو بروئے کار لاتی ہے۔ محنت کی تقسیم(سرمایہ دارانہ نظام میں ) ایک فرد کو کسان بناتی ہے تو دوسرے کو موچی۔تیسرے کو صنعتی کارکن تو چوتھے کو سٹاک مارکیٹ آپریٹر اور یہ سارے افراد مشینوں کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم مکمل طورپر مٹ جائے گی ۔اس نظام کے تحت دی جانے والی تعلیم نوجوانوں کو جلد ہی اس قابل بنادے گی کہ انہیں پیداوار کے تمام عمل پر مہارت ہواور وہ ایک شعبے پر دسترس رکھنے کے بعد دوسرے شعبوں میں بھی مہارت حاصل کرکے معاشرے اور نبی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں اور یوں وہ زندگی بھر ایک اکتا دینے والے پیشے یا کاروبار سے نجات حاصل کر سکیں گے جو کہ دراصل تقسیم محنت کے مروجہ نظام کی بدولت ہے جس نے ہر فرد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایسا معاشرہ جس کی بنیاد کمیونزم پر ہو گی ہر فرد کو ایک جیسے مواقع فراہم کرے گا کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مختلف شعبوں میں بروئے کار لائے۔ جب یہ عمل شروع ہو گا تو طبقات کا وجود لازمی طورپر مٹ جائے گا۔ یوں کمیونزم کی بنیاد پر استوار کیا جانے والا سماج طبقات کی باہمی کشمکش اور مقابلے کی دوڑ سے آزاد ہو گا اس طرح شہروں اور دیہاتوں میں پایا جانے والا فرق مٹ جائے گا۔ زراعت اور صنعت کو شہریا دیہات میں آباد عوام بلاتامل چلانے کے ماہر ہونگے۔ اشتراکی بنیادوں پر میل جول کے باعث ان کے درمیان دوریاں ختم ہو جائیں گی۔ کمیونسٹ بنیادوں پر قائم ہونے والا سماج جہاں ایک طرف طبقات کے وجود کا متحمل نہیں ہوسکتا دوسری طرف ایسا سماج وہ ذرائع بھی فراہم کرتا ہے جو طبقاتی تفریق کو ختم کر سکے۔ زرعی آبادی کی محض زمینوں سے جڑت اور صنعتی آبادی کی محض صنعتوں تک محدودیت ایک ایسی کیفیت ہے جس سے زراعت اور صنعت دونوں میں ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور یوں یہ مجموعی طورپر پورے معاشرے کی ترقی کے آگے ایک دیوار یا رکاوٹ بن جاتی ہے۔
عوام کے باہمی اشتراکی عمل کے نتیجے میں تمام افراد کا تعاون‘پیداواری عمل میں مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت شمولیت ہی پیداوار میں اضافے کا باعث بنے گی جس میں ہر فرد کی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہونگی‘ بے یقینی اور بے چینی کی صورتحال کا قلع قمع ہو جائے گا۔ پراگندگی مٹ جائے گی اور موجودہ نظام جس میں چند افراد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اکثریتی عوام کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طبقات بمعہ اپنے تضادات کے مٹ جائیں گے ۔موجودہ تقسیم محنت کے نظام کو ختم کرتے ہوئے عوام کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع فراہم ہونگے۔ صنعتی تفریق کا خاتمہ اور دوسری سرگرمیوں کے ذریعے عالمی ذرائع پیداوار میں عالمگیر بنیادوں پر شراکت اور استفادے‘قصبوں اور ملکوں کے بندھنوں سے آزاد ہو کر نجی ملکیت کے منہدم ہونے کے دورس نتائج برآمد ہونگے۔